آسام ‘ مسلم دشمنی کی انتہاء

   

ویسے تو جس وقت سے مرکز میں نریندر مودی کی حکومت قائم ہوئی ہے اسی وقت سے ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور مسلم دشمنی کی انتہاء ہونے لگی ہے ۔ کہیں مسلمانوں کو رسواء کرنے کیلئے پارلیمنٹ تک میں ناشائستہ زبان استعمال کی جاتی ہے تو کہیں مسلمانوںکو پاکستان چلے جانے کو کہا جاتا ہے ۔ کہیں بیف کے نام پر تاجروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کہیں ہجومی تشدد میں بے گناہ افراد کی جانیں لی جاتی ہیں۔ اس طرح کے معاملات میں ریاست آسام سب سے آگے دکھائی دے رہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ آسام کا چیف منسٹر ہیمنتا بسوا سرما مسلم دشمنی کے جنون میں پاگل پن کی حد تک آگے بڑھ گیا ہے ۔ آسام بی جے پی بھی اسی راہ پر گامزن دکھائی دے رہی ہے ۔ آسام میں آئندہ سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ایسے میں بی جے پی کی جانب سے ابھی سے ماحول کو پراگندہ کرنے اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے مسلمانوں کے خلاف رسواء کن مہم شروع کردی گئی ہے ۔ آسام بی جے پی نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ ایسی تصاویر پیش کی ہیں جن کے ذریعہ آسام کے ہندو عوام کو مسلمانوںسے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ داڑھی اور ٹوپی پہنے مسلمانوں کو پیش کرتے ہوئے کہیں بیف کو قانونی حیثیت مل جانے کا دعوی کیا گیا ہے تو کہیں آسام میں چائے کے باغات پر مسلمانوں کا تسلط دکھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ کسی فرد واحد کی کارروائی نہیں ہے اور نہ ہی کسی فرد واحد کا خیال کہتے ہوئے اسے مسترد کیا جاسکتا ہے ۔ یہ سب کچھ باضابطہ بی جے پی آسام یونٹ کے ایکس اکاؤنٹ پر پیش کیا گیا ہے جو انتہائی قابل مذمت ہے اور اس کے خلاف سخت ترین کارروائی کی ضرورت ہے ۔ بی جے پی کو اس پر معذرت کرنے کی ضرورت ہے اور ایسی انتہائی اشتعال انگیز حرکت جس کسی نے کی ہے اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جانی چاہئے ۔ اس طرح کی رسواء کن مہم کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔
چیف منسٹر آسام ہیمنتا بسوا سرما کا جہاں تک تعلق ہے وہ مسلم دشمنی کے جنون کا شکار ہے ۔ وہ ایک دستوری اور ذمہ دار عہدہ پر فائز رہتے ہوئے بھی انتہائی مفلوج اور بیمار فرقہ پرستانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف حد سے بڑھ کر تبصرے کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ ہندوستانی جمہوریت کا یہ المیہ ہے کہ اس طرح کی بیمار ذہنیت کے لوگ اب چیف منسٹر کی کرسی پر بھی براجمان ہوگئے ہیں اور ایسی منفی اورواہیات سوچ رکھنے والوں کو بی جے پی کی جانب سے چیف منسٹر کا عہدہ دیا جا رہا ہے ۔ آسام میں بی جے پی کیلئے آئندہ اسمبلی انتخابات میں صورتحال مشکل دکھائی دے رہی ہے ۔ حکومت آسام نے ریاست کے عوام کو کسی طرح کی سہولیات فراہم کرنے اور انہیں بہتر معیار زندگی فراہم کرنے کی بجائے سوائے فرقہ پرستانہ ایجنڈہ کے کوئی کام نہیں کیا ہے ۔ صرف مدارس کو نشانہ بنایا گیا ہے یا پھر مسلمانوں کو این آر سی کا خوف دلاتے ہوئے دھمکایا گیا ہے ۔ ڈیٹنشن سنٹرس قائم کرتے ہوئے خوف کا ماحول پیدا کرنے پر زیادہ توجہ دی گئی ہے ۔ ہندوستان کیلئے جنگوں میں حصہ لینے والے سابق فوجیوں کو بھی حراست میں لینے سے گریز نہیں کیا گیا ہے اور ترقی کے پہلو سے ریاست کے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے ۔ عوام کو ان کے بنیادی مسائل سے دور رکھنے کی حکمت عملی کے تحت ہی مسلمانوں کے خلاف رسواء کن مہم چلانے اور ان کے خلاف مسلسل اقدامات کرنے پر ہی ساری توانائی صرف کی گئی ہے ۔
بی جے پی کی مرکزی قیادت کو اس طرح کی رسواء کن مہم پر شرمندگی کا اظہار کرنے کی ضرورت ہے ۔ آسام بی جے پی کی سرزنش کی جانی چاہئے اور ملک بھر کی ذمہ دار مسلم تنظیموں کو ایسی نازیبا حرکت پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی کوششیں کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہونچایا جاسکے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکے ۔ سیاسی جماعتوں پر انحصار کرنے اور محض زبانی جمع خرچ کرنے کی بجائے مسلم اداروں اور تنظیموں کو اس طرح کی کوششوں کی سرکوبی کیلئے عدالتی اور قانونی راستہ اختیار کرنا چاہئے تاکہ مستقبل میں ایسی حرکتوں کا اعادہ ہونے نہ پائے ۔