نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا
کہ بجلی گرتے گرتے آپ خود بیزار ہوجائے
ریاست آسام میں جس وقت سے بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی ہے اور خاص طور پر دوسری میعاد میں جب ہیمنتا بسوا سرما ریاست کے چیف منسٹر بنے ہیں ریاست کو مسلم دشمنی کی مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔ لگاتار ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں جن کے نتیجہ میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہو رہے ہیں اور ایک طرح سے شرعی امور میں مداخلت ہو رہی ہے ۔ بی جے پی اور اس کے مرکزی قائدین ملک بھر میں سب کا ساتھ ۔ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا نعرہ دیتے ہیں لیکن یہ محض کھوکھلا نعرہ اور ایک انتخابی جملہ ہی بن کر رہ گیا ہے ۔ ملک کی کئی ایسی ریاستیں ہیں جہاں بی جے پی کی حکومتیں ہیں اور تقریبا ہر بی جے پی زیر اقتدار ریاست میں مخالف مسلم اقدامات کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ۔ ان میں احساس کمتری پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی ہے ۔ کئی ریاستیں ہیں جہاں بی جے پی حکومتوں نے یکساں سیول کوڈ کیلئے اسمبلی میں قرار دادیں منظور کی ہیں حالانکہ اس تعلق سے کوئی بھی فیصلہ مرکزی حکومت کو کرنا ہوتا ہے تاہم ریاستیں اپنے طور پر قرار داد منظور کرتے ہوئے اپنی ذہنیت کی عکاسی کر رہی ہیں۔ اسی طرح ملک بھر میں نوجوان مسلم لڑکیوں کو پھانس کر انہیں مرتد کیا جا رہا ہے ۔ ان سے غیر مسلم نوجوانوں کو عشق لڑانے اور شادیاں کرنے اور پھر بعد میں بے یار و مددگار چھوڑ دینے کیلئے نقد ترغیبات دی جا رہی ہیں ۔ ان واقعات کو روکنے کی بجائے لوو جہاد کا ہوا کھڑا کرتے ہوئے اس کے خلاف قانون سازی کی گئی ہے ۔ اس طرح کے کئی اقدامات کئے گئے ہیں اور ان تمام ریاستوں میں آسام سب سے آگے نکلنے لگی ہے ۔ چیف منسٹر آسام ہیمنتا بسوا سرما خاص طور پر مخالف مسلم اقدامات کیلئے شہرت حاصل کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اس معاملے میں چیف منسٹر اترپردیش آدتیہ ناتھ سے مقابلہ کرنے لگے ہیں۔ آسام میں پہلے مسلم میریج ایکٹ بنایا گیا جس کے تحت مسلم شادیوں اور طلاق کا رجسٹریشن لازمی کردیا گیا اور قاضیوں کے اختیارات محدود کردئے گئے ۔ ایسا تاحال ملک کی کسی اور ریاست میں نہیں کیا گیا ۔
اب آسام اسمبلی میں کئی دہوں سے جاری ایک روایت کو ختم کردیا گیا ہے ۔ جب کبھی آسام اسمبلی کا اجلاس جاری رہتا اس وقت جمعہ کو نماز جمعہ کیلئے دو گھنٹوں کا وقفہ دیا جاتا ۔ اسمبلی کی کارروائی کو دو گھنٹوں کیلئے روک دیا جاتا ۔ مسلم ارکان اسمبلی کو نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے موقع دیا جاتا تھا ۔ پھر لنچ کے بعد ایوان کی کارروائی کو شروع کیا جاتا تھا ۔ یہ دیرینہ روایت رہی تھی ۔ آسام اسمبلی میں مسلم نمائندگی خاطر خواہ ہوتی ہے اور ارکان اسمبلی کو نماز کا موقع فراہم کرتے ہوئے رواداری کی ایک بہتر مثال پیش کی جاتی تھی ۔ تاہم ہیمنتا بسوا سرما کی حکومت نے اس وقفہ کو بھی ختم کردیا ہے ۔ حالانکہ اس سلسلہ میں اسپیکر اسمبلی کے ذریعہ احکام جاری کئے گئے اور قدیم روایت کو برخواست کردیا گیا ہے لیکن یہ حقیقت سبھی قبول کرینگے کہ یہ ساری کارروائی حکومت کی ایماء پر ہی کی گئی ہے ۔ حالانکہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ مسلم ارکان اسمبلی یا پارلیمنٹ کو ایوان کی کارروائی کے دوران نماز کیلئے وقفہ دیا جائے تاہم آسام میں یہ روایت کئی دہوں سے چلی آ رہی تھی ۔ اس روایت پر آج تک کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا ۔ کسی گوشہ سے اس پر اعتراض بھی نہیںکیا گیا تھا اس کے باوجود حکومت نے اس روایت کو ختم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی مسلم دشمنی اور اپنے بغض و عناد کا ثبوت دیا ہے ۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس سے بی جے پی حکومت اور خاص طور پر چیف منسٹر کی منفی اور متعصب سوچ کی عکاسی ہوتی ہے ۔ حکومتوں کو ایسی ذہنیت ذیب نہیں دیتی ۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ چونکہ سکیولرا قدار کو ترجیح دی جانی چاہئے اس لئے عام دنوں میں جس طرح اسمبلی کی کارروائی بلا وقفہ جاری رہتی اسی طرح سے جمعہ کو بھی کسی وقفہ کے بغیر کارروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ سکیولر اقدار کی بات صرف نماز تک محدود نہیں کی جانی چاہئے ۔ سرکاری تقاریب اور پروگرامس میں پھر پوجا پاٹ وغیرہ کو بھی روکا جانا چاہئے ۔ سرکاری سطح پر کسی بھی مذہب کے پروگرام کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہئے ۔ صرف نماز کو نشانہ بنانے سکیولر اقدار کا عذر پیش کرنا درست نہیں ہے ۔ اس طرح سے حکومت کی منفی سوچ آشکار ہوئی ہے جسے ممکنہ حد تک تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔