لطیف آرزوؔ کوہیری
حضرتِ انسان کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ جب وہ مسلسل جانفشانی اور مشقت و لگن سے تھک کر چور ہوجاتا ہے تو ایسے حالات میں اس کا دل چاہتا ہے کہ کوئی ایسا لمحہ یا گھڑی آجائے کہ اس کی ذہنی تھکان کا بوجھ کچھ دیر کیلئے غائب ہوجائے اور افسردگی کی کیفیت خوشی و انبساط میں تبدیل ہوجائے ۔ دین اسلام انسان کی فطری ضرورت کی اہمیت کو محسوس کرتا ہے اس لئے وہ انسان کو جائز حدود میں خوشی منانے کا پورا پورا حق دیتا ہے۔ انسان کی گفتگو سے ہی اس کی شگفتہ مزاجی چھلکنے لگتی ہے۔ وقار اور سنجیدگی الگ اور مزاج میں شگفتگی الگ صفت ہے ۔ یہ دونوں صفتیں ایک انسان میں اکٹھی ہوجائیں تو بات ہی کچھ الگ ہوجاتی ہے ۔ ان کی بات بات میں پھو ل جھڑتے ہیں اور کبھی کبھی ان کی زبان سے نکلا ہوا جملہ محفل کو زعفران زار کرجاتا ہے ۔
آنحضرت ﷺ بڑے ظریف خوش طبع اور شگفتہ مزاج واقع ہوئے ہیں۔ اﷲ نے آپ ﷺ کو ساری انسانیت کیلئے رحمت عالم بناکر بھیجا ۔ آپ ﷺ نے خود فرمایا ہے کہ ’’میں خوش طبع تو کرتا ہوں مگر اس میں بھی بات سچ کہتا ہوں ‘‘ ۔
حضور اکرمﷺ سے قہقہہ مارکر ہنسنا ثابت نہیں ہے ۔ آپؐ ہمیشہ فکر آخرت اور غم اُمت میں مشغول رہتے اور آپؐ کا ضحک فرمانا جس میں داڑھ نظر آئیں بہت کم مرتبہ وارد ہوا ہے۔ کبھی کبھی کسی خاص واقعہ اور حکمت و مصلحت کے پیش نظر ضحک فرمایا ہے ۔ مزاح فرمانا آپؐ سے ظاہر ہے ۔ آپؐ کے مزاح فرمانے کی خاص وجہہ ایک یہ بھی تھی کہ آپؐ کا ذاتی وقار اتنا بلند تھا کہ صحابہؓ پر کپکپی طاری ہوجاتی اور رعب بھی ہیبت ناک تھا اس لئے آپؐ مزاح فرماتے کہ حاضرین کے دل میں آپؐ سے اُنسیت ، محبت اور لگاؤ پیدا ہو ۔ آپؐ اپنے ساتھیوں سے کُھل کر ملتے تھے اور ہمیشہ شگفتہ مزاجی کو کام میں لاتے تھے ۔ اور کبھی کبھی خوش طبعی کی باتیں بھی کرتے تھے تاکہ لوگوں کے رنج و غم دور ہوسکیں۔
حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ لوگوں نے تعجب اور حیرت کے ساتھ آپؐ سے کہا ، اے اﷲ کے رسول! آپؐ ہم سے ہنسی اور خوش طبعی کی باتیں فرماتے ہیں، آپؐ نے جواب دیا ’’ہاں ! لیکن کوئی غلط اور خلاف واقعہ بات نہیں کہتا ‘‘ ۔
طارق بن شہابؒ کہتے ہیں کہ میں نے عبداﷲ بن مسعودؓ کو سنا وہ فرماتے تھے کہ میں مقداد بن اسودؓ کا ایک ایسا کارنامہ دیکھا ہے کہ کاش ! وہ کارنامہ مجھ سے انجام پاتا جو اس جیسے ہر دوسرے کام سے مجھے عزیز تھا ۔ مقداد بن اسودؓ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت جب کہ آپؓ مشرکین مکہ سے لڑنے کی لوگوں کو دعوت دے رہے تھے تو اس وقت مقدادؓ نے کہا ’’ہم لوگ آپؐ سے اس طرح نہیں کہیں گے جیسا کہ موسیٰؑ کی قوم نے موسیٰ ؑ سے کہا تھا کہ ’’اے موسیٰؑ! تم اور تمہارا رب جاکر لڑو ‘‘ نہیں بلکہ ہم آپؐ کے دائیں ہوکر جنگ کریں گے ، بائیں سے لڑیں گے ، آپ کے آگے ہوکر ان سے لڑیں گے ، آپ کے پیچھے رہ کر ان سے لڑیں گے ‘‘۔ جب مقدادؓ نے یہ بات کہی تو میں نے دیکھا رسول اکرم ﷺ کا چہرہ مبارک خوشی سے چمک اُٹھا ۔ (مسند احمد)اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مقدادؓ کی جانثاری اور فداکاری کی بات سن کر آپؐ کو انتہائی مسرت ہوئی ۔
حضرت عبداﷲ بن حارثؓ کہتے ہیں میں نے حضور اقدسؐ سے زیادہ تبسم کرنے والا نہیں دیکھا ۔ (ترمذی) ایک دفعہ ایک عورت نے درخواست کی کہ مجھے اونٹ سواری کیلئے عطا فرمائیے ۔ فرمایا ’’نہیں ! تم کو اونٹنی کا بچہ دوں گا ‘‘ ۔ اس نے کہا ’’بچہ مجھے کیسے اُٹھاسکے گا ‘‘ ۔ فرمایا ’’سب اونٹ ، اونٹنی کے بچے نہیں ہوتے؟‘‘
ایک موقع پر کھجوریں کھائی جارہی تھیں ۔ مزاح کے طورپر گٹھلیاں نکال نکال کر حضرت علیؓ کے آگے ڈالتے رہے ۔ آخر گٹھلیوں کی طرف اشارہ فرماکر آپؐ نے فرمایا ’’تم نے بہت سی کھجوریں کھالیں‘‘۔ حضرت علیؓ نے کہا ’’میں نے گٹھلیوں سمیت نہیں کھائیں‘‘۔
ایک بڑھیا آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئی اور فرمایا ’’اﷲ کے رسول آپ دعا فرمادیں خدا مجھے جنت میں داخل فرمائے۔ آپؐ نے فرمایا بوڑھیاں جنت میں نہ جائیں گی ۔ یہ سن کر وہ بیچاری روتی ہوئی لوٹ گئی ۔ آپؐ نے فرمایا جاکر اس سے کہو اﷲ تعالیٰ عورتوں کو جوان کرکے جنت میں بھیجے گا ۔
آج سیرت النبیؐ کے مطالعہ سے دوری کی وجہ سے ہم میں بداخلاقی، جھوٹ ، دغابازی ، دھوکہ دہی ، الزام تراشی جیسے اعمال سراعت کرگئے ہیں۔ ان سے بچنا ازحد ضروری ہے ۔ اﷲ ہمیں ایسے کاموں سے محفوظ رکھے اور آپؐ کے اُسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمین