آندھرا پردیش اور تبدیل شدہ حالات

   

وعدوں کے اژدھام لگائو کہ کچھ تو ہو
ہر قدرِ اعتبار گھٹائو کہ کچھ تو ہو
لوک سبھا انتخابات اور ساتھ ہی ہوئے اسمبلی انتخابات نے ملک کے حالات اور ان ریاستوں کے حالات میں واضح تبدیلی پیدا کردی ہے جہاںاسمبلی انتخابات ہوئے تھے ۔ ملک بھر میں جہاں بی جے پی کی طوطی بول رہی تھی اب بی جے پی اور ملک میںسب سے بڑے لیڈر جو قرار دئے جا رہے تھے نریندر مودی یقینی طور پر دوبارہ وزیر اعظم بن رہے ہیں لیکن وہ بیساکھیوں کے سہارے چلیں گے ۔ ملک میںسکیولر اقدار کیلئے جدوجہد کرنے والے قائدین میںشامل رہے چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار اب این ڈی اے اور مودی حکومت کی بیساکھی بن رہے ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ یہ قائدین قومی سطح پر ہندوتوا اور سنگھ پریوار کے ایجنڈہ کو کامیاب ہونے میںرکاوٹ بنتے رہیں گے اور ترقیاتی اورفلاحی پروگراموں پر حکومت کو کاربند رہنے پر مجبور کریں گے ۔ جس طرح قومی سطح پر حالات تبدیل ہوئے ہیںاسی طرح اوڈیشہ میں بھی تقریبا ڈھائی دہائی بعد اقتدار تبدیل ہوا ہے اور وہاں بی جے پی نے بی جے ڈی کو کراری شکست دیتے ہوئے اقتدار حاصل کیا ہے ۔ ہماری پڑوسی ریاست آندھرا پردیش کی بات کی جائے تو وہاں بھی چندرا بابو نائیڈو نے توقعات سے کہیںزیادہ اور بڑی کامیابی درج کروائی ہے ۔ چندرا بابو ایک سنجیدہ اور تجربہ کار سیاستدان کے طور پر ملک بھر میںشہرت رکھتے ہیں۔ جہاں انہیںریاستی نظم و نسق کو بہتر انداز میں چلانے کا وسیع تجربہ ہے وہیں وہ قومی سطح پر مخلوط سیاست میں بھی اہم رول ادا کرچکے ہیں۔ اب جبکہ ملک میں مخلوط حکومت کا دور دوبارہ شروع ہوا ہے تو جہاںچندرا بابو نائیڈو قومی سطح پر اہم رول ادا کرنے والے ہیں وہیں انہیں آندھرا پردیش کا نظم و نسق بھی بہتر طور پر چلانے کی ذمہ داری مل گئی ہے ۔ اپنے وسیع کیرئیر اور حکمرانی کے تجربہ کے ساتھ یہ امید کی جاسکتی ہے کہ چندرا بابو نائیڈو آندھرا پردیش میں بھی صورتحا ل کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے سنجیدگی سے جدوجہد کریں گے ۔ آندھرا پردیش کی تقسیم کے بعد ایک دہائی کا عرصہ گذر چکا ہے ۔ آندھرا پردیش میں بہت کچھ کام کئے جانے باقی ہیں اور کچھ کام ہوئے بھی ہیں۔ تاہم ریاست کو ابھی ایک طویل سفر طئے کرنا ہے ۔
گذشتہ اسمبلی انتخابات میں جس طرح تلگودیشم انتہائی کمزور ہوگئی تھی اس کے بعد چندرا بابو نائیڈو کا وسیع تجربہ ہی تھا کہ وہ پارٹی کو ایک بار پھر اقتدار تک پہونچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو کی سیاسی تجربہ کاری ہی تھی جس کے ذریعہ انہوں نے جنا سینا اور بی جے پی کے ساتھ مل کر انتخاب لڑا تھا ۔ چندرا بابو نائیڈو کی پالیسی ہی تھی کہ انہوں نے سارے ملک میں مسلم تحفظات کے خلاف بکواس کرنے والی بی جے پی کو آندھرا پردیش میں اس مسئلہ پر کسی بھی طرح کے اظہار خیال سے روک دیا تھا اور خود انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ آندھرا پردیش میں تلگودیشم کو اقتدار حاصل ہوجاتا ہے تو مسلمانوں کیلئے چار فیصد تحفظات کو برقرار رکھا جائے گا ۔ اب چندرا بابو نائیڈو کیفرزند نارا لوکیش نے بھی مسلم تحفظات پر مثبت رائے کا اظہار کیا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ سماجی انصاف کے مقصد ے یہ کام کیا جا رہا ہے ۔ یہی وہ سوچ ہے جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے متحدہ آندھرا پردیش میںمسلمانوں کو چار فیصد تحفظات فراہم کئے گئے تھے ۔ اس کو برقرار رکھا جانا چاہئے ۔ بی جے پی نے جس طرح اس مسئلہ پر نفرت پھیلانے کی کوشش کی تھی چندرا بابو نائیڈو نے آندھرا پردیش میں ایسا ہونے نہیں دیا ۔ اب حکمرانی سنبھالنے کے بعد بھی چندرا بابو نائیڈو کو اسی طرح سماج کے مختلف طبقات کے مابین توازن برقرار رکھتے ہوئے کام کرنا چاہئے ۔ انہوں نے ریاست کے عوام سے اور اقلیتوں سے جو وعدے کئے تھے انہیں پورا کرنے پر توجہ دی جانی چاہئے ۔
آندھرا پردیش میں دارالحکومت کا مسئلہ ہے ‘ مقامی مسائل ہیں اور ریاست کو ترقی کی راہ پر آگے بڑھانے کی ذمہ داری ہے جو نائیڈو اپنی سنجیدگی اور تجربہ کاری سے بخوبی نبھا سکتے ہیں۔ انہوں نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد تو کیا ہے لیکن انہیں اس بات کو ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ بی جے پی ریاست کے پرامن ماحول کو متاثر کرنے نہ پائے ۔ انہیں سماج میں نراج اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہونے کا موقع نہیں دینا چاہئے ۔ جس طرح ریاست کے عوام نے ان میں اپنے یقین اور اعتماد کا اظہار کیا ہے چندرا بابو نائیڈو کو اس یقین اور اعتماد کو برقرار رکھنے اور اسے مزید مستحکم کرنے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔