اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
پڑوسی تلگو ریاست آندھرا پردیش میں سابق چیف منسٹر آنجہانی وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی دختر وائی ایس شرمیلا کو پردیش کانگریس کا صدر بنادیا گیا ہے ۔ شرمیلا نے یہ ذمہ داری سنبھال بھی لی ہے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ راہول گاندھی کو ملک کا وزیر اعظم بناتے تک کانگریس کے استحکام کیلئے کوشش کرتی رہیں گی ۔ آندھرا پردیش ایک ایسی ریاست ہے جہاں گذشتہ دس برس میں کانگریس کیلئے انتہائی تکلیف دہ صورتحال رہی ہے ۔ آندھرا پردیش سے کانگریس کا ایک بھی نمائندہ پارلیمنٹ کیلئے منتخب نہیں ہوا ہے جبکہ اسمبلی میں بھی یہی صورتحال رہی تھی ۔ دس برس کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا ۔ دس برس میں ہندوستان کی سیاست میں بہت کچھ تبدیلیاں ر ونما ہوجاتی ہیں۔ اس کے باوجود آندھرا پردیش کے عوام نے کانگریس کو تقسیم ریاست کیلئے ابھی تک معاف نہیں کیا ہے ۔ متحدہ آندھرا پردیش وہ ریاست تھی جو کانگریس کی طاقت سمجھی جاتی تھی ۔ کانگریس کے زیادہ سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ اسی ریاست سے منتخب ہوا کرتے تھے ۔ اسمبلی میں بھی کانگریس کی طاقت زبردست ہوا کرتی تھی ۔ تلگودیشم کو بھی کامیابی ملتی رہی ہے تاہم کانگریس کی طاقت متحدہ آندھرا پردیش میں بہت زیادہ تھی ۔ متحدہ ریاست کی تقسیم اور تلنگانہ کی تشکیل کے بعد سے آندھرا پردیش میں کانگریس کا سیاسی طور پر صفایا ہوگیا ہے ۔ کانگریس کو آندھرا کے عوام کی جانب سے سزا دینے کا سلسلہ جاری تھا ۔ تلنگانہ میں بھی کانگریس دو معیادوں تک اقتدار حاصل نہیںکرپائی تھی ۔ تیسری معیاد میں جب چناو ہوئے تب تلنگانہ میں کانگریس کو اقتدار حاصل ہوا ہے ۔ جنوب میں دو ریاستوں میں کانگریس نے اقتدار حاصل کیا ہے ۔ کرناٹک اور تلنگانہ ۔ دونوں کی کامیابی کے بعد جنوب کی ایک اور ریاست آندھرا پردیش کیلئے کانگریس کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ اب وہاں بھی پارٹی کے احیاء کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ پارٹی کو ایک عوامی چہرے کی ضرورت تھی ۔وائی ایس شرمیلا اس معاملے میں پارٹی کیلئے سودمند ثابت ہونے کی امید کی جا رہی ہے کیونکہ وہ آنجہانی راج شیکھر ریڈی کی دختر ہیں اور دوسروں کی بہ نسبت زیادہ عوامی مقبولیت رکھتی ہیں۔
آندھرا پردیش میں کانگریس کو ابتداء سے حکمت عملی تیار کرتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہوگی حالانکہ اتنا زیادہ وقت پارٹی کے پاس نہیں رہ گیا ہے ۔ پارلیمنٹ اور اسمبلی چناو کیلئے اب بہت کم وقت باقی ہے ۔ ایسے میں پارٹی کو بہت زیادہ سرگرمی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ جو قائدین اور کارکن آندھرا پردیش میں اب تک کانگریس کے ساتھ وابستگی برقرار رکھے ہوئے ہیں ان میں نیا جوش و خروش پیدا کرنا ہوگا ۔ عوام کو اعتماد میںلینے کے اقدامات کرنے ہونگے ۔ آندھرا پردیش میںوائی ایس آر کانگریس پارٹی چیف منسٹر جگن موہن ریڈی کی قیادت میںزبردست عوامی تائید رکھتی ہے ۔ تلگودیشم بھی عوام کے کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ تلگودیشم کو پون کلیان کی قیادت والی جنا سینا کے ساتھ اتحاد کی طاقت بھی حاصل ہے ۔ بی جے پی بھی ریاست میں اپنی سیاسی جگہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ایسے میں کانگریس پارٹی کیلئے اپنے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنا اور اقتدار تک پہونچنا آسان کام نہیں ہوسکتا ۔ ویسے تو سیاست میںکچھ ناممکن بھی نہیں ہے تاہم اس کیلئے پارٹی کو بے تکان جدوجہد کرنی ہوگی ۔ عوامی نبض کو سمجھتے ہوئے اس کے مطابق سیاسی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہوگی اور عوام میں اعتماد پیدا کرنے کیلئے عوام کے درمیان رہنا ہوگا ۔اس کیلئے پارٹی کیڈر اور موجودہ قائدین کو ذمہ داری سنبھالنی ہوگی ۔ شرمیلا کے چہرے پر ہی سارے مراحل کی تکمیل ہوجائے ایسا ممکن نظر نہیں آتا ۔
پارٹی کے سیاسی حکمت عملی ماہرین کو بھی عوامی نبض کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے مطابق پارٹی کیلئے موثر حکومت عملی بنانی ہوگی ۔ عوام کی رائے کو کانگریس پارٹی کے تعلق سے تبدیل کرنے سے بھی گریز نہیںکرنا چاہئے ۔ تقسیم ریاست کی شکایات کو اب دور کرنے کیلئے سرگرم ہونا پڑے گا ۔ حکومت کی پالیسیوں اور پروگراموں کی خامیوں کو عوام کے سامنے اجاگر کرنے کی ضرورت ہوگی اور خود کو ایک بہتر متبادل کے طور پر پیش کرنے کیلئے کمر کس لینا چاہئے ۔ یہ سارا کچھ اتنا آسان نہیں ہے اور اس کیلئے لگاتار جدوجہد کی ضرورت ہوگی ۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائیگا کہ پارٹی کس حد تک اپنے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے میں کامیاب ہوگی ۔