ایک ہاتھ میں قرآن اور کندھے پر راکٹ لانچر تھامے فرد کی تصویر۔ تعلیم میں بھی فرقہ پرستی کا زہر
حیدرآباد ۔ 25 ۔ ستمبر : ( محمد نعیم وجاہت ) : تعلیم کو بھی زعفرانی فکر دینیمیں اب ایسا لگتا ہے ہندوتوا طاقتیں کامیاب ہورہی ہیں ۔ ملک بھر کی جامعات میں نصاب کی تبدیلی کے ذریعہ نفرت پھیلائی جارہی ہے ۔ آپسی بھائی چارگی کو ختم کیا جارہا ہے ۔ اس معاملے میں شائد تلنگانہ بھی محفوظ نہیں ہے ۔ انگریزی میڈیم آٹھویں جماعت کی سوشیل اسٹیڈیز کے ایک مضمون میں جو تصویر شائع کی گئی ہے اس میں ایک نقاب پوش دہشت گرد کو دکھایا گیا ہے جس کے ایک ہاتھ میں کتاب ہے اور کندھے پر راکٹ لانچر ہے ۔ بچوں کی ذہن سازی اور تربیت جتنی گھروں میں ہوتی ہے اس سے زیادہ اسکولس میں ہوتی ہے لیکن شاید اب فرقہ واریت کا زہر اسکولس تک بھی سرائیت کرچکا ہے ۔ تلنگانہ میں آٹھویں جماعت کے طلبہ کیلئے سوشیل اسٹیڈیز کی کتاب نئے ترامیم کے ساتھ شامل نصاب کی گئی ۔ اس کتاب میں دہشت گرد کو جس انداز میں پیش کیا گیا ہے جس سے بچوں کو یہ تاثر ملے کہ قرآن ہاتھ میں رکھنے والے افراد دہشت گرد ہوتے ہیں ۔ آٹھویں جماعت کی کتاب
Real Life Beyond Text Book
کے صفحہ نمبر 291 پر جو مضمون دیا گیا ہے ۔ اس کا عنوان
National movement the last phase 1919-1947
ہے ۔ اس کے چند اہم تصاویر میں عدم تعاون تحریک ۔ گاندھی جی کی ستیہ گردہ ۔ نیشنل کانگریس کے اجلاس ، سیول نافرمانی تحریک کی کئی تصاویر کے ساتھ ایک دہشت گرد کی تصویر شائع کی گئی ہے ۔ جس میں ایک نقاب پوش شخص کو ہاتھ میں ایک کتاب اور کندھے پر راکٹ لانچر رکھے دکھایا گیا ہے جب کہ دیگر تصاویر میں اس زمانے کے اعتبار سے اگر واقعی دہشت گرد کے تصویر کی ضرورت تھی تو دہشت گرد کی جگہ ناتھورام گوڈسے کی تصویر شائع کی جاسکتی تھی کیونکہ جس دور کی تصاویر شائع کی گئی اسی دور کا سب سے بڑا دہشت گرد ناتھورام گوڈسے تھا جس نے بابائے قوم گاندھی جی کا قتل کیا تھا ۔ کتاب میں جو تصویر شائع کی گئی ہے وہ ہندوستانی شہری کی نہیں ہے جب کہ جو مضمون ہے وہ ہندوستان سے متعلق ہے اور ان تصاویر کے ذریعہ یہ پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ قرآن کے حامل افراد دہشت گرد ہوتے ہیں اگر اسکولی طلبہ کے ذہنوں کو اس طرح پراگندہ کیا جاتا ہے تو جو حالات پیدا ہوں گے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہوجائے گا ۔ محکمہ تعلیم بالخصوص وزیر تعلیم سبیتا اندرا ریڈی کو اس کا سخت نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔ اس تصویر سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہورہے ہیں اس تصویر کا انتخاب کرنے والے کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے اور نصابی کتاب سے اس تصویر کو فوری حذف کیا جانا چاہئے ۔ جب تک تعصب پھیلانے والوں کی سرکوبی نہیں ہوگی تب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔