آپ خیال کرتے ہیں کہ غار والے اور رقیم والے ہماری ان نشانیوں میں سے ہیں جو تعجب خیز ہیں

   

کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ غار والے اور رقیم والے ہماری ان نشانیوں میں سے ہیں جو تعجب خیز ہیں۔ ( سورۃ الکہف ؍۹)
گزشتہ سے پیوستہ … قرآن کریم نے اصحاب کہف کے واقعہ کا وہ پہلو ذکر کیا جو ہمارے لیے ہدایت کا در س رکھتا ہے باقی اس کے زمان و مکان وغیرہ تفصیلات کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا۔ ہر واقعہ کے بیان میں قرآن کریم کا اسلوب یہی ہے اور یہی ایک ایسی خصوصیت ہے جو قرآن حکیم کو تاریخ کی کتب سے ممتاز کرتی ہے ۔ قرآن میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں ان سے مقصود داستان سرائی نہیں بلکہ عبرت آموزی اور بصیرت افروزی ہے۔ صحیح احادیث میں بھی اس واقعہ کی تفصیلات مذکور نہیں۔ اغلباً ہمارے مؤرخین نے علماء اہل کتاب سے جو کچھ سنا وہ لکھ دیا ۔ اہل کتاب کے ان علماء کے پاس واقعہ کے متعلق پہلی تحریری دستاویز بشپ جمیس کے یہی مواعظ ہیں اس لئے یہ خیال کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ واقعہ کی یہ تفصیلات حقیقت سے زیادہ قریب ہیں۔یہاں ایک چیز ضرور قابل غور ہے۔ گبن نے بڑی گستاخی سے کام لیتے ہوئے لکھا ہے کہ حضور کریم (ﷺ) نے یہ واقعہ اپنے شام کے تجارتی سفروں کے اثناء میں علماء اہل کتاب سے سنا اور اسے وحی الٰہی کہہ کر قرآن میں درج کر دیا۔ کیونکہ قرآن کریم کی بیان کردہ تفصیلات جمیس کے مواعظ میں لکھی ہوئی تفصیلات سے کلی مطابقت نہیں رکھتیں۔ اس لیے اس گستاخ اور منہ پھٹ مؤرخ نے سپہر علم و حکمت کے نیراعظم پر بےعملی اور جہالت کا الزام لگایا۔ اس طرح اس نے یہ صرف حقیقت کا منہ چڑایا ہے بلکہ مؤرخ کے بلند مقام کو بھی تعصب کی غلاظت سے آلودہ کر دیا ہے۔ جب وہ خود مانتا ہے کہ یہ مجموعہ ۴۷۴ء؁ میں لکھا گیا۔ اور اسی کے قول کے مطابق یہ واقعہ ۴۲۷ء؁ میں پیش آیا۔