’’آپ کو کونسا کارنامہ انجام دینے پر نوبل انعام ملا‘‘؟

,

   

نوبل انعام یافتہ یزیدی خاتون نادیہ مراد سے ٹرمپ کا سوال

واشنگٹن ۔ 18 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے چہارشنبہ کے روز نوبل انعام یافتہ یزیدی خاتون نادیہ مراد کو انعام ملنے کی وجوہات اور مقاصد سے اس وقت لاعلمی کا اظہار کیا جب انہوں نے صدر ٹرمپ سے عراق کے یزیدیوں کی مدد کرنے کی اپیل کی۔ یاد رہیکہ 2014ء میں نادیہ مراد ان ہزاروں یزیدی خواتین اور لڑکـیوں میں شامل تھیں جن کا دولت اسلامیہ گروپ نے اغواء کرلیا تھا تاہم بعد میں نادیہ مراد مذہبی تشدد میں بچ جانے والے افراد کے گروپ میں شامل ہوگئیں جس نے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں منعقدہ ایک اجلاس کے سلسلہ میں اوول آفس میں بھی حاضری دی تھی۔ اس موقع پر نادیہ مراد نے ٹرمپ کو اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے کہا تھا کہ کس طرح ان کی والدہ اور چھ بھائیوں کو قتل کردیا گیا تھا اور 3000 یزیدی لاپتہ ہوگئے تھے۔ اتنا سننے کے بعد ٹرمپ نے نادیہ کی بات درمیان میں کاٹتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کو نوبل انعام بھی ملا ہے جو ایک لاجواب بات ہے لیکن آپ نے ایسا کونسا کام کیا ہے یا کارنامہ انجام دیا ہیکہ آپ کو نوبل انعام دیا گیا؟ اتنا سنتے ہی نادیہ مراد نے کچھ دیر توقف کے بعد ایک بار پھر اپنی آپ بیتی سنانا شروع کردی۔ نادیہ مراد کو گذشتہ سال مشترکہ طور پر نوبل انعام کا مستحق قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے سب کو واضح طور پر بتادیا کہ دولت اسلامیہ کے جہادیوں نے ہزاروں یزیدی خواتین کی عصمت ریزی کی۔ انہوں نے ٹرمپ سے پھر کہا کہ برائے مہربانی کچھ کیجئے کیونکہ یہ محض کسی ایک خاندان کا سوال نہیں ہے۔

ٹرمپ نے اس وقت بھی کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا جب نادیہ مراد نے ان سے اپیل کی تھی کہ موصوف عراق اور کرد حکومتوں پر دباؤ ڈالیں کہ یزیدیوں کی وطن واپسی کیلئے سازگار ماحول پیدا کریں۔ نادیہ مرادنے ٹرمپ کے سامنے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ کس طرح یزیدیوں نے جرمنی میں پناہ حاصل کرنے کیلئے خطرناک راستوں کا انتخاب کیا تھا جبکہ جرمنی کی جانب سے پناہ گزینوں کا خیرمقدم کئے جانے کو بھی عالمی سطح پر تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی دلچسپ ہوگا کہ ٹرمپ نے بالکل ایسا ہی رویہ ایک روہنگیا نمائندہ کے ساتھ بھی روا رکھا تھا جب وہ ان سے ملاقات کیلئے آیا تھا۔ روہنگیا مسلمانوں کو تقریباً دو سال قبل وہاں کے راکھین اسٹیٹ میں میانمار کی فوج اور بدھسٹوں نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا جسے خود امریکہ نے ’’نسل کشی‘‘ سے تعبیر کیا تھا اور جبکہ صرف ایک روز قبل ہی ٹرمپ انتظامیہ نے میانمار کے فوجی سربراہ اور دیگر تین اعلیٰ عہدیداروں کے امریکہ داخلہ پر پابندی عائد کردی ہے۔