آکسیجن کی کمی سے اموات کی نفی

   

سارا ہندوستان بلکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ کورونا کی دوسری لہر کے دوران اپریل کے اواخر اور مئی کے اوائل میںآکسیجن کی کمی سے کس طرح سارے ملک میںافرا تفری مچ گئی تھی ۔ لوگ دواخانوں کے باہر پڑے ہوئے آخری سانسیں گن رہے تھے ۔ دواخانوں میں کہیں آکسیجن دستیاب نہیں تھی ۔ مرکزی حکومت ریاستوں کو آکسیجن کی ضرورت کے مطابق سربراہی میں پوری طرح ناکام ہوگئی تھی ۔ اسی وجہ سے سپریم کورٹ کو بھی آکسیجن کے مسئلہ پر ایک سے زائد مرتبہ مرکزی حکومت کی سرزنش کرنی پڑی تھی ۔ عدالت نے ایک موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ حکومت چاہے بھیک مانگے لیکن ریاستوں کی آکسیجن کی طلب کو پورا کرے ۔ حکومت کی جانب سے بھی عدالتوں میں بارہا یہ یقین دہانی کروائی جا رہی تھی کہ حکومت آکسیجن کیس پلائی کو بہتر بنانے کیلئے مسلسل جدوجہد کر رہی ہے ۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ کس طرح سے آکسیجن کی کمی اور قلت کے نتیجہ میں ہندوستان میں ہزاروں اموات ہوئی ہیں۔ لوگ اپنے عزیز واقارب کو اپنی آنکھوں کے سامنے آکسیجن کی کمی کی وجہ سے مرتے ہوئے دیکھ رہے تھے لیکن وہ بے بس تھے کچھ کر نہیں پا رہے تھے ۔ حکومتیں خود بے حس اور لا پرواہ ہوگئی تھیں۔ کچھ دواخانوں میں تو تجرباتی طور پر مریضوں کی آکسیجن روک دی گئی تھی جس کی وجہ سے درجنوں اموات ہوئی ہیں۔ یہ سارے معاملے میڈیا کے ذریعہ ملک کے سامنے آئے تھے اور عوام نے ان پر ناراضگی اور برہمی کا بھی اظہار کیا تھا ۔ اتنا سارا کچھ ہوجانے کے بعد اب مرکزی حکومت پارلیمنٹ جیسے ادارہ میں دھڑلے سے جھوٹ بیانی کررہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ملک کی کسی بھی ریاست نے کورونا سے اموات کے معاملے میں کہیں بھی آکسیجن کی کمی کی وجہ سے موت ہونے کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے ۔ چاہے ریاستو ں نے کوئی تذکرہ نہ کیا ہو یا پھر مرکزی حکومت کی جانب سے حقائق کی پردہ پوشی کی جا رہی ہو یہ تو طئے ہے کہ حکومتیں صریح غلط بیانی اور جھوٹ سے ملک کے عوام کو بیوقوف بنانا چاہتی ہیں۔ ہندوستان بھر میں شائد ہی کوئی ایسا فرد ہوگا جو حکومت کے ان دعووں پر یقین کر پائے گا ۔
پارلیمنٹ ملک کی جمہوریت کا ایک اعلی ترین ادارہ ہے ۔ اسے مقدس بھی مانا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود حکومت ایوان پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر بھی غلط بیانی سے کام لے رہی ہے اور ملک کے عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے ۔ ایک دو یا چار چھ اموات نہیں بلکہ ہزاروں افراد اس ملک میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے فوت ہوگئے ہیں۔ ہزاروں گھر اجڑ گئے ہیں۔ لاکھوں بچے یتیم و یسیر ہوگئے ہیں اور بے شمار گھر اجڑ گئے ہیں۔ حکومت خود اپنے ملک کے عوام کے اس دکھ درد کو بانٹنے اور پارلیمنٹ میں اپنی ناکامیوں اور نا اہلی کا اعتراف کرتے ہوئے عوام سے معذرت خواہی کرنے اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے ان کی اموات کی ہی نفی کر رہی ہے ۔ یہ ملک کے عوام کے ساتھ انتہائی بھونڈا مذاق ہے ۔ یہ سارے ملک کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے ۔ حکومت بھلے ہی اپنے طور پر یہ اعتراف کرنے کی ہمت نہ کر پائے کہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ملک میں اموات ہوئی ہیں لیکن سوشیل میڈیا اور میڈیا پر سارے حقائق موجود ہیں کہ کس طرح ملک کے کس شہر اور کس ریاست میں آکسیجن کی کمی کے نتیجہ میں کیا قیامت ٹوٹ پڑی تھی ۔ لوگ کس طرح اپنے عزیز و اقارب کو اپنی آنکھوں کے سامنے دم توڑ تے دیکھنے پر مجبور ہوگئے تھے ۔ دواخانوں کی کس طرح کی حالت ہوگئی تھی ۔ سماجی اور فلاحی تنظیموں اور اداروں کی جانب سے اپنے طور پر ممکنہ حد تک ضرورت مندوں کو آکسیجن فراہم کرنے کیلئے عارضی ہی صحیح لیکن وسیع تر انتظامات کئے گئے تھے ۔
اکثر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ حکومت ہر مسئلہ پر ملک کے عوام سے جھوٹ بیان کرتی ہے اور غلط بیانی کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ تاہم انتہائی حساس اور سنگین نوعیت کے اس مسئلہ پر تو اسے دروغ گوئی سے گریز کرنے کی ضرورت تھی ۔ ملک کے عوام سے اس طرح کا فریب کرنا مناسب نہیںہوسکتا ۔ حکومت کو اب بھی اپنی غلطیوں اور خامیوں کا اعتراف کرنا چاہئے ۔ ملک کے عوام سے معذرت خواہی کرنی چاہئے ۔ جو خاندان متاثر ہوئے ہیں ان سے اظہار یگانگت کرتے ہوئے ان کے غموں اور دکھوں کا مداوا کرنا چاہئے اور جھوٹ و دروغ گوئی کا سہارا لینے سے گریز کرنا چاہئے ۔