آگرہ میں بی جے پی سے عوام برہم

   

صباء نقوی
یادگار ِ محبت تاج محل کے شہر آگرہ میں لوگ بی جے پی کے خلاف ہوگئے ہیں اور لوگوں میں بی جے پی کو لے کر برہمی پائی جاتی ہے، حالانکہ سال 2017ء کے اسمبلی انتخابات میں آگرہ کی تمام 9 اسمبلی نشستوں پر بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی تھی جبکہ 8 نومبر 2016ء کی رات وزیراعظم نریندر مودی نے اچانک نوٹ بندی کا اعلان کردیا تھا اور اس اعلان کے نتیجہ میں شہر کے لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اعلان عوام کیلئے ایک صدمہ سے کم نہیں تھا، لیکن نوٹ بندی کے باوجود 11 فروری 2017ء کو یوپی اسمبلی انتخابات کا انعقاد عمل میں اور پھر بی جے پی کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی۔ جہاں تک آگرہ کا سوال ہے ، ہندوستان کے اہم سیاحتی مقامات میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ آگرہ کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ روایتی طور پر یہاں غیرمنظم شعبہ سے لوگ وابستہ ہیں اور غیرمنظم شعبہ ہی انہیں روزگار فراہم کرتا ہے۔ لیدر انڈسٹریز کی اپنی ایک پہچان ہے اور جو مالی لین دین ہوتا ہے وہ اس صنعت میں بہت کارگر ثابت ہوتا ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام مشکلات کے باوجود عوام نے 2017ء میں بی جے پی کو ووٹ کیسے دیا؟ اگر یہ مان لیا جائے 2017 ء میں بی جے پی کے حق میں رائے دہی ایک دھرم کا معاملہ ہے ، تو پھر 2019ء کے پارلیمانی انتخابات میں بھی آگرہ کی دو پارلیمانی نشستوں آگرہ اور فتح پور سیکری بھی بی جے پی نے جیتی۔
لیکن حالیہ عرصہ کے دوران یہ دیکھا جارہا ہے کہ آگرہ کے لوگ جس طرح ماضی میں بی جے پی سے جڑے ہوئے تھے یا اس کے وفادار تھے ایسا لگتا ہے کہ اب قابل لحاظ حد تک بی جے پی سے دور ہوگئے ہیں۔ خاص طور پر دلت طبقے میں بی جے پی کے متعلق برہمی پائی جاتی ہے۔ دھیرج کمار آگرہ میں جوتوں کی کئی فیکٹریز چلاتے ہیں اور وہ آگرہ کو دلتوں کا دارالحکومت کہتے ہیں۔ وہ بااثر جاٹو دلتوں کی ذیلی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق یہ ذات دلتوں کی جملہ آزادی کا 54% ہے (ویسے بھی آپ کو بتا دوں کہ اترپردیش کی آبادی میں دلتوں کا تناسب 21% ہے) دھیرج کمار کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے ملازمین کی اکثریت جاٹو ذات سے تعلق رکھتی ہے جبکہ کچھ مسلمان بھی ان کے یہاں کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کئی ایک غیررجسٹر شدہ فیکٹریوں کو نوٹ بندی کے باعث بند کرنا پڑا اور اب ان کے ورکرس کو جوتے کی ایک جوڑی کے حساب سے اُجرت دی جارہی ہے۔ یہ لو گ اب تنخواہوں پر کام نہیں کررہے ہیں۔ دھیرج کمار کے مطابق وہ ہنوز اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کی فیکٹریوں میں تیار ہونے والی چپل، جوتے وغیرہ باٹا اور پیراگون جیسے برانڈس کو سربراہ کئے جاتے ہیں، تاہم ان کے کاروبار پر نوٹ بندی اور پھر لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس سے بہت نقصان پہنچا۔
بہرحال میں نے آگرہ کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا، ایسے ہی عیدگاہ کاٹ گھر محلہ میں بھی پہنچ گئی جہاں 15 ورکر چمکدار، سیاہ، سنتھیٹک جوتے بنانے میں مصروف تھے (آج کل آگرہ کی جوتے ساز فیکٹریز میں لیدر استعمال نہیں کیا جارہا ہے کیونکہ چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کی حکومت نے بے شمار مسالخ کو غیرقانونی قرار دے کر بند کردیا ہے۔ ان حالات میں خام مال کی قلت پیدا ہوگئی۔ ایسے میں مصنوعی مال کا استعمال عام ہوگیا ہے) میں نے ان ورکروں سے جب یہ سوال کیا کہ وہ اس مرتبہ کس کے حق میں ووٹ دیں گے؟ اس سوال پر وہ چونک پڑے اور اپنی رائے دہی کی ترجیحات کے بارے میں ٹال مٹول سے کام لیا، لیکن فیکٹری کے انچارج نے جب ترغیب دی کہ وہ کھلے طور پر اظہار خیال کردیں تو ان میں سے کئی نے کہا کہ ہم نے بی جے پی لہر کے باعث 2017ء بی جے پی کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن اب مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کے حق میں ووٹ دیں گے، کیونکہ یہ ہماری پارٹی ہے (واضح رہے کہ مایاوتی خود ایک جاٹو دلت ہے اور ان کا ووٹر بلاک ہے اس نے انہیں چار مرتبہ عہدۂ چیف منسٹری پر فائز کیا، لیکن 2014ء میں جاٹو دلتوں کی ایک چھوٹی سی تعداد نے نریندر مودی کی حمایت کی جو عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کی کوشش کررہے تھے۔ 2014ء کی طرح 2017ء میں بھی جب ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور پھر 2019ء میں عام انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا تب بھی جاٹو دلتوں کے ایک گوشے نے بی جے پی کا ساتھ دیا۔ میں نے دیکھا کہ اب بھی جاٹو دلت بی جے پی کی تائید میں ہیں۔ دوسری جانب ایک اور شو فیکٹری کے جاٹو دلت مالک نے بھیم آرمی کے سربراہ چندر شیکھر آزاد (راون) میں دلچسپی کا اظہار کیا جنہوں نے حال ہی میں آگرہ میں زبردست ہجوم جمع کیا تھا اور نوجوان دلتوں میں وہ کافی مقبول ہیں، لیکن اس سے بی ایس پی کمزور ہوسکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چندر شیکھر آزاد ، اکھیلیش یادو کے ساتھ اتحاد کرتے ہیں یا نہیں۔ اکھیلیش یادو نے 2012-17ء کے درمیان حکومت کی ۔ اکھیلیش یادو نے جیئنت چودھری آر ایل ڈی سے اتحاد کیا۔ آر ایل ڈی کو آگرہ کے دیہی علاقوں میں جاٹ کسانوں کی زبردست تائید حاصل ہے۔ ان جاٹ کسانوں نے مودی حکومت کے زرعی قوانین کی مخالفت کی تھی۔ سماج وادی پارٹی نے اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی سے بھی بات چیت کی ہے اور یو پی میں اسے بنیا پارٹی کہا جاتا ہے۔ بہرحال آگرہ میں اس مرتبہ بی جے پی کیلئے حالات سازگار دکھائی نہیں دیتے۔ مسلمان تو بی جے پی سے دوری اختیار کئے ہوئے ہیں ، اسی طرح آگرہ کی مشہور مندر کے مہنت نے میرے ساتھ بات چیت میں اعتراف کیا کہ بی جے پی کے تعلق سے برہمنوں میں بھی ناراضگی پائی جاتی ہے۔ برہمن ، یوگی ادتیہ ناتھ کے خلاف ہیں۔ لیکن اب بی جے پی کیا کرتی ہے یہ دیکھنا ضروری ہے اگر رائے دہندوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کیا جاتا ہے تو پھر حالات مختلف ہوسکتے ہیں۔