ائی ایس ایف سے جھٹکا لگانے کے بعد اے ائی ایم ائی ایم 5سیٹوں پر کرے گی مقابلہ۔مغربی بنگال الیکشن

,

   

حیدرآباد۔ مغربی بنگال میں جاری اسمبلی انتخابات میں ایسا لگ رہا ہے کہ مذکورہ کل ہند مجلس اتحادالمسلمین(اے ائی ایم ائی ایم)محض پانچ سے اٹھ سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے گی۔

اویسی کے سارے کھیل کو اس وقت زبردست جھٹکا لگا جب فور فورا شریف درگاہ کے متولی اور مسلمانوں میں اثر رکھنے والے عباس صدیقی نے لفٹ کانگریس اتحاد کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیاتھا۔

پارٹی کے ایک سینئر قائد جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہاکہ مذکورہ پارٹی توقع کی جارہی ہے کہ مرشد آباد ضلع کے زیادہ تر سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے گی‘ یہ وہ حلقہ ہے جہاں پر مسلمانوں کے ووٹوں کا تناسب 80فیصد کے قریب ہے۔

انہو ں نے یہ بھی جانکاری دی کہ ابتداء میں پارٹی نے عباس صدیقی کے ساتھ شرکت داری میں 25سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارنے کا فیصلہ کیاتھا‘ جنھوں نے عین انتخابات سے قبل انڈین سکیولر فرنٹ (ائی ایس ایف) نام سے ایک پارٹی تشکیل دی ہے۔

مذکور ہ اے ائی ایم ائی ایم لیڈر نے سیاست ڈاٹ کام کو بتایاکہ”پارٹی کا مقصد مسلم ووٹوں کا حصول تھا جہاں پر مذکورہ کمیونٹی کا ووٹ شیئر40فیصد یا اس سے زیادہ ہے‘ کیونکہ ترنمول کانگریس‘ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)اور کانگریس لفٹ ووٹوں کی تقسیم عمل میں ائی گی“۔

چند ماہ قبل ہی مغربی بنگال میں انتخابات کے اعلان سے قبل ہی اے ائی ایم ائی ایم پارٹی نے جاری مغربی بنگال انتخابات میں مقابلہ کی پوری تیاری کرچکی تھی۔ پچھلے سال بہار انتخابات میں حیدرآباد نژاد پارٹی نے پانچ سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی۔

تاہم اس وقت او راب میں بڑا فرق یہ ہے کہ مذکورہ اے ائی ایم ائی ایم بڑی سیاسی جماعتوں سے باغیوں سے جڑی ہے‘ جو اس کی کشتی کو پار لگاسکتے ہیں۔

علاوہ ازیں اس کو داخلی شور ش سے شکار بنایاگیاہے‘ جس نے اس کے مواقعو ں کو مایوس کیاہے۔ پارٹی کو اس وقت بڑا جھٹکا لگا جب پارٹی کے ریاستی انچارج ضمیر الحسن نے یہ کہتے ہوئے پارٹی سے استعفیٰ دیدیا تھا کہ اویسی مغربی بنگال میں بی جے پی کے ساتھ کام کرنے کے منشاء رکھتے ہیں۔

مذکورہ اے ائی ایم ائی ایم لیڈر نے سیاست ڈاٹ کام کو بتایاکہ”وہ (عباس صدیقی) دوراندیش سیاسی بصیرت سے عاری ہیں۔ انہیں 24سیٹیں دی گئی ہے‘ جہاں پر مسلم ووٹ شیئر20فیصد کے قریب ہے۔

اس کے علاوہ ان کا اتحاد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسٹ) کے ساتھ ہے‘ کانگریس تو انہیں ساتھ رکھنے کے خواہاں نہیں تھی“۔انہوں نے مزید کہاکہ مغربی بنگال میں 90فیصد مسلمان موجودہ چیف منسٹر ممتا بنرجی اور ٹی ایم سی سربراہ کی حمایت کررہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ”مقامی حالات کو دیکھنے کے بعد‘ ہم نے دوسرا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا‘ زیادہ تر مسلم رائے دہندوں نے ممتابنرجی حکومت کو بچانے کا فیصلہ کرلیا ہے“۔

سال2016کے مغربی بنگال انتخابات میں ٹی ایم سی نے 211سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی اور جو بی جے پی اگلے حکومت تشکیل دینے کا دعوی کررہی ہے وہ محض 3سیٹوں تک سمٹ کر رہ گئی تھی۔

مذکورہ اسمبلی انتخابات میں سی پی ایم نے26اورکانگریس نے 44سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی (دونوں میں اتحاد تھا)

بی جے پی جو اس وقت اپنے وجود کی لڑائی میں مصروف تھی2019کے لوک سبھا الیکشن میں 42میں سے 18حلقوں پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے مغربی بنگال کی سیاست میں ایک نیا موڑ لادیاتھا‘ جبکہ ٹی ایم سی محض22سیٹوں پر جیت حاصل کرتے ہوئے پیچھے رہ گئی تھی‘جبکہ کانگریس نے دو سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی۔

مذکورہ اے ائی ایم ائی ایم لیڈر نے گمان لگایاکہ”سال2019کے عام انتخابات میں بی جے پی 57فیصد ہندو ووٹ شیئر حاصل کیا جبکہ ٹی ایم سی کو ماباقی ووٹ ملا اور ساتھ میں 70فیصد مسلم ووٹ بھی تھا۔

مسلم ووٹوں کے متحد ہونے کی وجہہ سے ممتا کو اب کامیابی ملے گی“۔ مغربی بنگال میں مسلمانوں کو تناسب30فیصد ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ 100سیٹوں پر مسلمانوں کو موقف فیصلہ کن ہے‘ وہیں 57سیٹ ایسے ہیں جہاں پر مسلمانوں کا ووٹ شیئر40فیصد سے زائد ہے۔

سیاسی مبصر سمیت آنند جس نے 2019کے عام انتخابات کے دوران حیدرآباد میں کام کیا تھا اور انہوں نے ملک بھر میں بھی انتخابات کا جائزہ لیاہے نے کہاکہ اگر ائی ایس ایف کے سربراہ عباس صدیقی کانگریس لفٹ اتحاد میں شامل نہیں ہوتے تو اے ائی ایم ائی ایم کے لئے مغربی بنگال کا سیاسی میدان بلکل منفرد ہوتا۔