ائے رہبر ملک و قوم بتا کس کا لہو ہے کون مرا

   

غضنفر علی خان
پھر وہی حالات ، وہی بے قصور مسلم نوجوان کا قتل ، وہی ہجومی تشدد یہ تازہ ترین واقعہ جھارکھنڈ میں ہوا جس میں ایک ہجوم نے ایک مسلم نوجوان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا ، اس نوجوان کی شادی کو ہوئے 8 یا 10 سال ہوئے۔ تبریز انصاری نہ تو کوئی دہشت گرد تھا اور نہ تو کوئی اور کسی قسم کے گروہ سے اس کی وابستگی تھی، اس کا پولیس کے پاس کوئی مجرمانہ ریکارڈ بھی نہیں تھا ۔ اُس کے پاس سے نہ تو گائے کا گوشت برآمد ہوا اور نہ اس کے قبضہ سے گا ؤ ماتاؤں کو برآمد کیا گیا ۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ تبریز انصاری ایک مسلمان تھا اور شائد اب ہمارے ملک میں مسلمان ہونا سب سے بڑا جرم ہے ۔ سر پر ٹوپی ، پاجامہ و کرتا پہننا آج کے ہندوستان میں سخت اور کبیرہ گناہ سمجھا جارہا ہے۔ جھارکھنڈ بڑی تیزی کے ساتھ ہندوتوا فرقہ پرستوں کا اڈہ بن رہا ہے ۔ آج ملک بھر میں ہندو فرقہ پرستی کو عروج حاصل ہورہا ہے ، پڑھنے والوں کو شائد تعجب ہوگا کہ ہمارے ملک کی یہ کایا پلٹ کیسے ہوگئی ۔ ملک کی اکثریت بلا لحاظ مذہب و ملت تو پرامن بقائے باہم کی عدیم المثل نمونہ تھی لیکن برا ہو کہ پچھلے چند سالوں میں ہندوستانی تہذیب ، تاریخ ، رواداری کو چند سیاستدانوں نے ملیامیٹ کردیا ۔ ہندو قوم پرستی کا وہ زہر جو بی جے پی سنگھ پریوار اور آر ایس ایس گھول گھول کر پلا رہے تھے ، اس نے اب اثر دکھانا شروع کردیا ہے ۔ اس سلسلہ میں سنگھ پریوار میں سب سے زیادہ الزام بی جے پی پر عائد ہوتا ہے کیونکہ بی جے پی ہی اس پریوار کا سیاسی چہرہ ہے اور سچ بات تو یہ ہے کہ اگر پریوار اقتدار پر آسکتا ہے تو یہی بی جے پی اس کا واحد راستہ ہے۔ ہندو قوم پرستی کا پھیلنا اور لوگوں کو متاثر کرنا ایک خاص حکمت عملی کے تحت کیا جارہا ہے ۔ سرکاری محکمہ جات میں اعلیٰ ترین سطح کے عہدیداروں میں اسی ذہنیت کے لوگ بڑھتے جارہے ہیں جس سے بھائی چارگی ، اخوت اور برادرانہ تعلقات کو گہن لگ گیا ہے ۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس پراگندہ ماحول میں وزیراعظم مودی آخر کونسا ’’نیا ہندوستان‘‘ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نہیں چاہئے ایسا نیا ہندوستان جس میں مختلف مذاہب والوں کے درمیان منافرت پیدا ہو۔ وہ ہندوستانی جو صدیوں سے ایک ملی جلی تہذیب کو اپنے خون پسینہ سے بنارہے تھے ، اسے ایک ہی جھٹکے میں مودی اینڈ کمپنی نے مسمار کرنے کی اپنی کوششوں کو تیز تر کردیا ہے ۔ تبریز انصاری کو کیوں ہلاک کیا گیا ؟ کیوں واردات کی دوسری صبح پولیس مقام واردات پر پہنچی اور کیوں ایف آئی آر درج نہیں کیا گیا ؟ کیا پولیس تبریز انصاری کے ساتھ ہے ، کیا یہ قتل پولیس اور درندہ صفت دہشت گردوں کی ملی بھگت کا تو نتیجہ نہیں ہے ؟ پولیس کے رویہ پر ملک کے میڈیا نے بھی سخت تنقید کی ہے ، اس نوجوان پر بھی الزام ہے کہ اس نے ایک گھر سے قیمتی اشیاء کا سرقہ کیا تھا اور پولیس کے مطابق یہ مسروقہ مال بھی اس کے پاس سے برآمد کرلیا گیا ہے ۔ چلیئے تھوڑی دیر کے لئے اس مفروضہ کو مان لیا جائے تو بھی کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔ پرتشدد ہجوم نے کیوں قانون اپنے ہاتھ میں لیا اور کیوں بجلی کے کھمبے سے باندھ کر اسے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا ۔ کیا ہندوستانی قانون کے تعزیرات ہند میں ایسی کوئی دفعہ ہے کہ سرقہ کرنے والے کو عام آدمی یا ان کا کوئی گروہ جان سے مار سکتا ہے …؟ دوسری بات یہ کہ پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے میں کیوں تاخیر کی ۔ تبریز انصاری کے رشتہ داروں کی منت و سماجت کے باوجود کیوں انہیں زخمی تبریز سے ملنے نہیں دیا ۔ پہلے مقامی اسپتال میں اس کا علاج کیا گیا لیکن چونکہ زخم بے حد گہرے و جان لیوا تھے اس لئے اس کا کوئی علاج نہ ہوسکا ۔ اس کے بعد تبریز انصاری کو صدر دواخانہ منتقل کیا گیا ، جہاں وہ ا پنے زخموں سے جانبر نہ ہوسکا ۔یہ واقعہ امریکی رپورٹ کے شائع ہونے کے دوسرے دن کیا ہوا جس میں امریکی ایجنسیوں نے رپورٹ دی تھی کہ ہندوستان میں مذہبی عصبیت اور عدم تحمل کا رجحان بڑھتا جارہا ہے

اور یہاں اقلیتیں بالخصوص مسلمان اور ہریجن خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔ ہم یہ بات مانتے ہیں کہ امریکہ یا کسی اور کو ہندوستان کی داخلی صورتحال پر رائے دہی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ، یہ طرز عمل ہمارے دستوری موقف پر ضرب ہے جس میں تمام ہندوستانیوں کو مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ چاہے کوئی عقیدہ رکھیں اور عقیدہ کی بنیاد پر کوئی ناانصافی نہیں کی جاسکتی۔ اس امریکی رپورٹ کو حکومت ہند نے بالکل مسترد کردیا ۔ یہ طرز عمل بالکل درست ہے ۔ ہمارے معاملات میںدخل اندازی ، آزاد ہندوستان کو کیا کوئی بھی قبول نہیں کرسکتا لیکن اس رپورٹ کے دوسرے ہی دن مسلم نوجوان تبریز انصاری کا بے رحمانہ قتل کا واقعہ کیوں وقوع پذیر ہوا ؟ ہم ہندوستانی اس کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ اس میں امریکی سفارش کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ تو ہم کو بھی سوچنا چاہئے کہ کیوں مسلم نوجوانوں کا بے وجہ و بے رحمانہ قتل کیا جارہا ہے ، اس سے پہلے بھی دادری میں اس سلسلہ کا پہلا قتل ہوا تھا جس میں ایک مسلمان کو اسی طرح سے لرزہ خیز انداز میں ہجومی تشدد میں ہلاکت ہوئی تھی ۔ پھر تو جانیئے کے گویا مسلمانوں کے قتل کو ہمارے ملک میں کوئی جرم نہیں سمجھا جاتا ۔ پہلو خان ، جنید اور دیگر ہلاکت خیز واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسلمان کا لہو ہندوستان میں بے حد ارزاں ہوگیا ہے ، کبھی کسی ٹرین میں جنید جیسے نوجوان کو ٹرین میں ہلاک کردیا جاتا ہے اور آج تک اس قتل کے مجرموں کو کوئی سزا نہیں ملی ۔ دادری کے واقعہ کا شکار محمد اخلاق ہوئے تھے ، جن کے گھر میں گائے کے گوشت کی موجودگی کا جھوٹا الزام عائد کیا گیا تھا اور اسی جھوٹے پروپگنڈہ کی وجہ سے ہجومیوں نے ان کے گھر میں گھس کر انہیں ہلاک کردیا ۔ آخر یہ سلسلہ کہاں ختم ہوگا …؟ ہم اس ہندوستان کو کہاں اور کن گلی کوچوں میں تلاش کریں کہ جس میں دونوں فرقے شیر و شکرکی طرح محبت و اخوت کے ساتھ رہا کرتے تھے ۔ یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے بلکہ حال حال تک یہی روایات چلتی رہی ، کوئی کسی کو اپنا دشمن نہیں سمجھتا تھا جیسا کہ آج ہندو نیشنلزم کے زہر کا اثر دیکھا جارہا ہے، جو بی جے پی اور نریندر مودی کے ساتھیوں نے ملک کے رگ و ریشہ میں دوڈا دیا ہے۔ کس نئے ہندوستان کی بات مودی جی کر رہے ہیں۔ کیا اُن کا مطلب ایسے نئے ہندوستان سے ہے جس میں ہندوستانی مسلمانوں سے اتنی نفرت ہوگی کہ بے قصور مسلمان ہلاک کردیئے جائیں گے ۔ نہیںچاہئے ۔ ہمیں ایسے نیا ہندوستان کی ضرورت ہے جس میں انسانی خون چاہے ہندو کا ہو ، مسلمان یا کوئی طبقات کا بے دام ہوجائے ۔ یہ سب ہندو نیشنلزم یا ہندو قوم پرستی کے نعرے کا نتیجہ ہے ۔ بڑی تیزی سے یہ زہر پھیل رہا ہے ، یہ ایک قومی کینسر کے برابر ہے ۔ اگر اس زہر کا تریاق نہیں ڈھونڈا گیا تو پھر ہندوتوا یا ہندو راشٹر کا وہ خواب جو مودی دکھا رہے ہیں، اللہ نہ کرے پورا ہوجائے گا۔