ابوبکر البغدادی کی ہلاکت

   

کرم تو غم سے کریم تر ہے
سحر بھی شب سے عظیم تر ہے
ابوبکر البغدادی کی ہلاکت
دولت اسلامیہ گروپ ( داعش ) لیڈر ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کا دعویٰ کرتے ہوئے صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے انتہا پسند گروپس کو نیا دھکہ پہنچایا ہے ۔ یہ گروپ عراق اور شام کے کئی علاقوں پر اپنا کنٹرول رکھتا تھا لیکن سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ آیا امریکہ کی اس کارروائی کے بعد انتہا پسند گروپس کا خطرہ ختم ہوگیا ہے ؟ آئی ایس یا داعش اور دیگر انتہا پسند گروپس کی کارروائیاں نئی نہیں ہیں ۔ یہ گروپس گذشتہ تقریبا دو دہوں سے سرگرم ہیں ۔ جب کبھی ان گروپس کا کوئی طاقتور لیڈر ہلاک ہوتا ہے تو گروپس کے دیگر ارکان خود کی طاقت کو دوبارہ مجتمع کر کے سرگرم ہوتے ہیں ۔ برسوں سے یہی ہوتا آیا ہے بڑے گروپ کا لیڈر فوت ہوتا ہے تو تھوڑے وقفہ کے لیے خاموشی چھا جاتی ہے لیکن کچھ دنوں بعد یہ نئے حملے شروع کردیتے ہیں ۔ امریکہ کی خصوصی فوج کے دھاوے میں بغدادی کی موت کو مغربی ممالک خاص کر امریکہ اپنی بڑی کامیابی متصور کررہا ہے ۔ اس کارروائی میں بغدادی کی موت بلا شبہ داعش کے لیے بہت بڑا دھکہ ہے کیوں کہ انہوں نے عراق اور شام کے کئی حصوں میں سال 2014 میں نئے ’ خلیفہ ‘ کا اعلان کیا تھا ۔ لیکن فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اس طرح کا واقعہ انتہا پسند گروپس کے لیے کوئی خاص نقصان ہے ۔ داعش یا انتہا پسند گروپس کے اندر اسی طرح کی اموات کا اثر دیرپا نہیں رہتا ۔ گروپس کے ارکان ان کی جگہ نئے خلیفہ کو منتخب کرلیتے ہیں ۔ اس لیے امریکہ کے لیے چوکسی بہر حال لازمی ہے ۔ البغدادی کی موت کا اعلان کرتے ہوئے صدر امریکہ نے جو بیان دیا ہے اس تناظر میں غور کیا جائے تو بغدادی کی موت پر بعض شکوک و شبہات بھی پیدا ہوتے ہیں کیوں کہ بغدادی کو جولائی 2014 کے بعد سے نہیں دیکھا گیا وہ 2014 سے ہی روپوش ہوئے ہیں ۔ ان کے خلاف جس علاقہ ادلب میں کارروائی کی گئی وہ علاقہ بغدادی کے لیے غیر محفوظ متصور کیا جاتا تھا ۔ شمال مغربی شام کے علاقہ ادلب میں ماضی میں القاعدہ سے منسلک النصرہ فرنٹ کا کنٹرول ہے ۔ یہ تنظیم داعش کے خلاف ہے ۔ النصرہ اور داعش دونوں ہی ایک دوسرے کے حریف سمجھے جاتے ہیں تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ البغدادی نے اس علاقہ میں روپوشی کیوں اختیار کی تھی ۔ ہوسکتا ہے کہ بغدادی نے اپنے حریفوں کے پاس ہی پناہ لی ہو لیکن امریکی کارروائی میں ان کی ہلاکت پر یقین کرنے سے تامل کرنے والوں کے لیے یہ حیران کن خبر ہے کہ داعش سربراہ کو ادلب میں گھیر لیا گیا تھا ۔ ابوبکر البغدادی کو ایک چالاک اور پر اسرار سیاہ پوش شخص مانا جاتا تھا جنہوں نے ایک علاقہ میں شورش پیدا کر کے دیکھتے ہی دیکھتے عالمی دہشت گردی کے نیٹ ورک میں تبدیل کردیا گیا تھا ۔ داعش کی کارروائیوں نے ساری دنیا میں بعض نوجوانوں کے ذہن تبدیل کردئیے تھے ۔ جس کے نتیجہ میں 100 سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد داعش میں شامل ہوتے گئے تھے ۔ امریکہ نے البغدادی کا تعاقب کرتے ہوئے اپنی ساری طاقت جھونک دی تھی اور یہ بین الاقوامی تعاقب کئی برسوں سے جاری تھا ۔ کم از کم چار ممالک کی انٹلی جنس البغدادی کو تلاش کررہی تھی ۔ اب جب کہ امریکہ نے داعش سربراہ کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے تو اس تنظیم کو کمزور کرنے کے لیے یہ تصدیق کافی نہیں سمجھی جائے گی کیوں کہ انتہا پسند تحریک کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جب کسی تنظیم کے سربراہ کی ہلاکت ہوتی ہے تو تنظیمیں پہلے سے زیادہ مضبوط اور متحرک ہوکر حملے کرتی ہیں ۔ امریکہ اس حقیقت کو مد نظر رکھ کر اپنی چوکسی میں اضافہ کرتا ہے تو سیکوریٹی کا مسئلہ حل ہوگا ۔ تاہم امریکہ کو یہ تجربہ بھی ہے کہ جب کبھی اس نے بڑی کارروائی کی ہے اس کے بعد اسے دوسری بڑی طاقت کا سامنا کرنا پڑا ہے جیسا کہ عراق میں القاعدہ کے سابق سربراہ ابومصعب الزرقائی کو امریکہ نے 2006 میں فضائی حملوں میں ہلاک کیا تھا اس کے بعد داعش ابھر کر سامنے آئی ۔ اب البغدادی کی موت کے بعد داعش اپنی طاقت دوبارہ مجتمع کرسکتی ہے ۔۔