ابوحفص حضرت عمرفاروق ص

   

ابوزہیر حافظ سید زبیرھاشمی نظامی

اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کا بے انتہاء فضل و کرم ہے کہ اُس نے ہم کو اُمت مصطفیٰ ﷺبناکر اس دنیائے فانی میں مبعوث فرمایا۔ اور ساتھ ہی ساتھ صحابۂ عظام رضوان اﷲتعالیٰ علیہم اجمعین سے عقیدت و محبت کا اظہار کرنے کی توفیق بھی عطا فرمایا۔ چنانچہ اسی ضمن میں عشرۂ مبشرہ میں سے صحابیٔ رسول خلیفہ دوّم حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اﷲ عنہ کی ذات گرامی کے متعلق تحریر پیش خدمت ہے۔ اہلِ سنت و جماعت کا متفقہ طور پر یہ عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء عظام علیھم الصلوۃ والسلام کے بعد سب سے بڑا مرتبہ صحابۂ کرام رضوان اﷲتعالیٰ علیہم اجمعین کا ہے۔ یہ تمام کے تمام ایسی باعظمت و مبارک ہستیاں ہیں، جنہوں نے ایمان کی حالت میں حضور نبی کریم ﷺکے چہرۂ انور کو دیکھا ہے اور اُسی حالتِ ایمان میں وصال فرمایا۔ اور آپ ﷺکی صحبتِ بافیض سے مشرف ہوے۔ ان تمام صحابۂ عظام رضوان اﷲتعالیٰ علیہم اجمعین میں سب سے اونچا درجہ خلفائے راشدین رضی اﷲ عنہم اجمعین کا ہے۔
خلیفۂ دوم، ناطقِ صواب و حق ابوحفص حضرت سیدنا عمربن خطاب رضی اﷲتعالیٰ عنہ جنت کی اس عمومی بشارت کے باوجود باوصف خصوصی بشارت سے بھی سرفراز فرمائے گئے۔ اﷲتعالیٰ نے آپ کے ذریعہ پیام اسلام کو عام کیا۔ آپ ؓ کی زبان مبارک پر حق کو جاری فرمایا اور آپ کو حق و باطل کے درمیان امتیاز کی وجہ بنادیا۔
ولادت: خلیفۂ دوم کی ولادت کے متعلق حضرت امام نووی رحمۃ اﷲ علیہ نے تحریر فرمایا کہ آپ کی ولادت عام الفیل کے تیرہ سال بعد ہوئی۔
نام: ’’عمر‘‘ کنیت: ’’ابوحفص‘‘ لقب: ’’فاروق‘‘ ہے۔ نسبِ مبارک اسطرح ہے: سیدنا عمربن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن ریاح بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لؤی۔ (تاریخ الخلفاء جلد اول )
سنن ابن ماجہ شریف میں آپ ہی کے حق میں خصوصیت کے ساتھ یہ دعا مذکور ہے: ’’ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہا سے روایت ہے، آپ ﷺنے دعا فرمائی : اے اﷲ تو بطورخاص عمربن خطاب کو اسلام کی توفیق عطا کرکے اسلام کو غلبہ عطا فرما‘‘۔ (باب فضل عمرؓ)سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲتعالیٰ عنہ، سیدنا امیرحمزہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے بعد چھ (۶) نبوی میں اسلام قبول کئے۔ اُس وقت آپ ستائیس سال کے تھے۔
سنن ابن ماجہ شریف میں حدیث شریف ہے:’’سیدنا عبداﷲبن عباس رضی اﷲتعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: جس وقت حضرت عمرؓمشرف باسلام ہوئے، حضرت جبرئیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور عرض کئے ائے پیکرحمدوثناء ﷺ! یقینًا حضرت عمر کے اسلام قبول کرنے پر اہل آسمان نے خوشیاں منائیں‘‘۔
خلیفۂ دوم کے اسلام لانے کا واقعہ اس طرح ہے کہ ایک دن ننگی تلوار لئے غصہ کی حالت میں جارہے تھے، راستہ میں حضرت نعیم بن عبداﷲ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوئی۔ آپ کے اسلام کی خبر ابھی حضرت عمرؓ کو نہیں تھی۔ پوچھا ائے عمر! ننگی تلوارلئے کہاں جارہے ہو؟ آپ نے کہا: آج بانیٔ اسلام کا فیصلہ کردینا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا پہلے اپنے گھر کی خبر لو! تمہاری بہن فاطمہ بنت خطاب رضی اﷲعنہا اور بہنوئی سعیدبن زید رضی اﷲعنہ، دونوں مسلمان ہوگئے ہیں۔خلیفۂ دوم اپنا رخ بدل کر بہن کے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا، دونوں قرآنی آیات تلاوت کررہے تھے، فورًا تلاوت قرآن موقوف کرکے بہن نے دروازہ کھولا۔ اور کہا کہ: اے عمر! کیا ابھی وقت نہیں آیا ہے، کیا ابھی باز نہیں آؤگے؟ اسلام میں داخل ہوجاؤ! حضرت عمرفاروق رضی اﷲعنہ نے بآوازبلند توحید ورسالت کی گواہی دی اور حلقۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔ تمام مسلمان خوشی کے مارے نعرۂ تکبیر بلند کئے۔ اس موقع پر حضرت جبرئیل علیہ السلام بارگاہِ رسالت مآب ﷺمیں حاضری دیکر عرض کئے یارسول اﷲ! عمر رضی اﷲعنہ اسلام میں داخل ہونے پر تمام آسمان والے ایک دوسرے کو مبار باد پیش کئے اور خوشیاں منائے۔پھر حضرت عمرفاروق کی گزارش پر علی الاعلان حرم کعبہ میں مسلمانوں نے نماز ادا کی۔
اسلام قبول کرنے کے بعد بھی حضرت عمررضی اﷲعنہ کا تیور جلال ہمیشہ باقی رہا۔ آپ کے دل میں حضوراکرم ﷺسے کمال وارفتگی اور دین اسلام سے اٹوٹ وابستگی پیدا ہوگئی۔یہی وجہ تھی کہ ابلیس لعین بھی آپ کی شخصیت کا سامنا نہیں کرسکتا تھا۔ اورجہاں کہیں آپ تشریف لے جاتے، وہاں سے وہ راہ فرار اختیار کرجاتا تھا۔خلیفۂ دوم رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے حق و انصاف کے قیام، حدود اور شرعی قوانین اسلام کے نفاذ کیلئے اپنوں اور غیروں میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھا۔ غیرمسلموںکو بھی جان و مال کا تحفظ فراہم کیا۔اکثر مدینہ طیبہ میں وفات پانے اور جام شہادت نوش کرنے کی دعا کیا کرتے۔ صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک ہے:’’اے اﷲ! تو مجھے اپنی راہ میں شہادت نصیب فرما اور اپنے حبیب کے شہر مقدس میں مجھے وفات عطا فرما‘‘۔(المواہب اللدنیہ ،صحیح بخاری، کتاب فضائل المدینۃ)
وفات: دعائے حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اﷲ عنہ کی یہ تاثیر رہی کہ شہادت غرّہ محرم الحرام ۲۴ ہجری کو مدینہ منورہ میں ہی ہوئی اور تدفین روضۂ رسول ﷺ میں ہوئی۔اﷲتعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو عدالت فاروقی کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
[email protected]