سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
غزہ میں دو سال تک انسانیت سوز جرائم اور نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے کے بعد اسرائیل اب مغربی کنارہ کے تعلق سے اپنے ناپاک عزائم کا اظہار کرنے لگا ہے ۔ اسرائیلی پارلیمنٹ نے ماضی میں غزہ پر مکمل کنٹرول کی قرار داد منظور کی تھی اور اس کا باضابطہ اعلان بھی کردیا تھا ۔ دنیا بھر میں اس کی مخالفت کی گئی اور امریکی صدرڈونالڈ ٹرمپ کی مداخلت کے نتیجہ میں غزہ میں جنگ بندی معاہدہ ممکن ہوسکا ۔ اس کیلئے حماس پر بھی دباؤ ڈالا گیا اور اسے جنگ بندی معاہدہ منظور کرنے کیلئے مجبور کیا گیا ۔ غزہ میں جنگ بندی معاہدہ پر عمل آوری کا آغاز ہوگیا ۔ اسرائیل کے یرغمالیوں کو حماس کی قید سے رہا کردیا گیا ۔ اس کے علاوہ مرنے والے اسرائیلیوں کی نعشیں بھی حوالے کردی گئیں اور فلسطینی قیدیوں کی بھی اسرائیل کی قید سے رہائی عمل میں آئی ۔ دنیا بھر میں اس معاہدہ کی ستائش ہوئی اور اس کیلئے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی کاوشوں کو سراہا گیا ۔ کئی ممالک کے سربراہان نے اس معاہدہ پر دستخط کی تقریب میں شرکت بھی کی تھی ۔ اب اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارہ کو نشانہ بنانے اور اس کے تعلق سے اپنے ناپاک عزائم کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ اسرائیل نے دو سال میں غزہ کو قبرستان میں تبدیل کردیا اور تقریبا تمام بستیوں کو ملبے کا ڈھیر بنادیا گیا ہے ۔ ہزاروں فلسطینی شہید اور لاکھوں بے گھر ہوگئے ہیں۔ بے شمار خاندان ایسے ہیں جو ملبہ کے ڈھیر میں زندگی تلاش کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ غزہ میں اسرائیل نے ایک طرح سے اپنے نشانوں کی تکمیل کرلی ہے اور اب وہ بتدریج مغربی کنارہ کو نشانہ بنانے کی تیاری کر رہا ہے ۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں مغربی کنار ہ پر بھی اسرائیل کے مکمل قبضہ اور کنٹرول کی قرار داد منظور کی گئی ہے اور اس علاقہ میں بھی یہودی بستیاں بسانے کی تیاری شروع کردی گئی ہے ۔ یہ تبدیلیاں بجائے خود انتہائی تشویشناک ہیں اور اس کے نتیجہ میں غزہ جنگ بندی معاہدہ بھی متاثر ہوسکتا ہے اور اس کے مستقبل کے تعلق سے اندیشے پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل نے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ مسئلہ فلسطین کے دو قومی حل کا امکان ہی ختم کرنا چاہتا ہے اور فلسطینی ریاست کا تصور بھی بے معنی ہو کر رہ جائے گا ۔ اسرائیل کے یہی کچھ حقیقی عزائم ہیں۔
غزہ جنگ بندی معاہدہ کی تائید اور اس کی ستائش کرنے والے ممالک کی اکثریت نے مسئلہ فلسطین کے دیرپا اور واجبی حل کیلئے دو قومی نظریہ کی تائید کی تھی اور مملکت فلسطین کو دنیا کے کئی ممالک نے تسلیم بھی کرنا شروع کردیا ہے ۔ ایسے میں فلسطینی ریاست کا تصور ختم کرنا آسان نہیں ہوگا تاہم یہ اندیشے بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ اسرائیل کی جان سے مغربی کنارہ میں بھی وہی کچھ وحشیانہ اور غیر انسانی کارروائیاں کی جاسکتی ہیں جو غزہ میں کی گئی تھیں۔ اسرائیل کے عزائم ہمیشہ سے فلسطین کے تعلق سے منفی ہی رہے ہیں اور وہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی اور یہودی بستیاں بسانے کا منصوبہ رکھتا ہے ۔ اسرائیل اپنے عزائم کی تکمیل میں دنیا کے کسی قانون کو تسلیم کرنے تیار نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اقوام متحدہ جیسے ادارہ کا کوئی پاس و لحاظ رکھتا ہے ۔ عالمی ممالک اور اقوام متحدہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف کوئی جامع اور سخت کارروائی بھی نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے اسرائیل کے عزائم مزید بلند ہوجاتے ہیں۔ اسرائیل کو ابھی سے مغربی کنارہ کے تعلق سے اس کے عزائم پر روکا جانا چاہئے ۔ اس پر لگام کسی جانی چاہئے اور یہ واضح کردیا جانا چاہئے کہ جو انسانیت سوز جرائم اس نے غزہ میں انجام دئے ہیں انہیں مغربی کنارہ میں دہرانے کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی ۔ غزہ کی طرح مغربی کنارہ کے عوام کو اسرائیل کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا اور نہ ہی وہاں بھی نسل کشی کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک کو اس معاملے میں حرکت میں آنے اور فلسطین کا مسئلہ حل کرنے کیلئے اقدامات تیز کرنے کی ضرورت ہے ۔ دنیا کی خاموشی اسرائیل کے عزائم کو مستحکم کرنے کی وجہ بن سکتی ہے اور وہ اپنے منصوبوں پر عمل کرسکتا ہے ۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو خاص طور پر اس معاملے میں بھی پہل کرنے کی ضرورت ہے جس طرح انہوں نے غزہ جنگ بندی کیلئے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا تھا ۔ صرف غزہ میں جنگ بندی نافذ کرواتے ہوئے اسرائیل کو اس کے جارحانہ تیور سے باز نہیں رکھا جاسکتا ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ مملکت فلسطین کا قیام باضابطہ طور پر عمل میں لایا جائے اور اس کو دنیا بھر میں منظوری دلائی جائے ۔ علاقہ کے عرب ممالک کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ ابھی سے منصوبہ بندی کرتے ہوئے مغربی کنارہ کے تعلق سے اسرائیل کے جارحانہ عزائم پر روک لگائیں اور دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ مل کر اسرائیل پر دباو ڈالنے کی تیاری کریں۔ مغربی کنارہ کو دوسرا غزہ بنانے کی اجازت قطعی نہیں دی جاسکتی ۔
آسٹریلیائی کرکٹرس سے بدتمیزی
ملک میں وقفہ وقفہ سے کچھ ناپسندیدہ اور ایسے واقعات پیش آ رہے ہیں جن کی وجہ سے ملک کی نیک نامی متاثر ہو رہی ہے اور ہندوستانی روایات اور کلچر پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ کہیں خواتین کی جانب سے اپنے شوہروں کو قتل کیا جا رہا ہے تو کہیں شوہر اپنی شریک حیات کا قتل کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ حالیہ عرصہ میں بیرونی ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین کے ساتھ بدتمیزی کے واقعات بھی پیش آ رہے ہیں جس کی وجہ سے عالمی سطح پر ہندوستان کو شرمساری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ایک تازہ ترین واقعہ مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں پیش آیا جہاں آسٹریلیا کی دو خاتون کرکٹرس کے ساتھ بدتمیزی اور دست درازی کی گئی ۔ یہ خواتین وومنس ورلڈ کپ کھیلنے کیلئے ہندوستان آئی ہوئی ہیں اور وہ اپنے ہوٹل سے ایک کیفے کی سمت جارہی تھیں کہ کسی بدمعاش نے ان کے ساتھ دست درازی کی اور چھیڑ چھاڑ کی گئی ۔ آسٹریلیائی خواتین کرکٹ ٹیم کے سکیوریٹی مینیجر نے اس واقعہ کی پولیس میں شکایت درج کروائی اور پولیس نے ملزم کو گرفتار بھی کرلیا ہے ۔ حالانکہ پولیس نے فوری حرکت میں آکر ملزم کو گرفتار تو کرلیا ہے تاہم یہ واقعہ سارے ملک کیلئے باعث شرم کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ساری دنیا میں ملک کی بدنامی اور رسوائی ہو سکتی ہے ۔ ہندوستان کی روایات اور کلچر میں خواتین کی عزت و احترام کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔ مہمان اگر کوئی ہے تو اس کی تواضع اور بھی زیادہ کی جاتی ہے تاہم اگر مہمان کے ساتھ ہی بدتمیزی اور دست درازی کی جائے تو یہ انتہائی افسوسناک حرکت ہے اور مستقبل میں اس طرح کی حرکات کا ازالہ اور سدباب کیا جانا چاہئے ۔ ملک کی رسوائی اور بدنامی کا ذریعہ بننے والی حرکتوں سے سبھی کو گریز کرنا چاہئے اور اس تعلق سے نوجوانوں میں خاص طور پر شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ایسی شرمناک حرکتوں سے اجتناب کرسکیں۔