تمہارے حوصلوںکی آزمائش کس طرح ہوگی
کہ خود چاروں طرف ہیں جال تمہارے ہی پھیلائے
اب یدی یورپا کی آزمائش
حکومت گرانا آسان ہے لیکن حکومت چلانا بہت مشکل، کرناٹک کی یدی یورپا حکومت نے حلف لیا ہے۔ اب چیف منسٹر یدی یورپا کو ایک بڑی مہم چلانے کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ اپنی حکومت کو مستحکم کرسکیں۔ کرناٹک کے عوام کو غیرمستحکم حکومت کی وجہ سے نقصانات ہورہے ہیں۔ ایچ ڈی کمارا سوامی زیرقیادت مخلوط حکومت کو گرانے کیلئے انہیں محنت نہیں کرنی پڑی ہوگی جتنی اب انہیں اپنی حکومت کی میعاد پوری کرنے کیلئے کرنی پڑے گی۔ کرناٹک کا سیاسی ماحول اس قدر مکدر ہوچکا ہے کہ ہر لیڈر کی نیک نیتی پر شبہ پیدا ہوگا۔ چوتھی مرتبہ چیف منسٹر کا حلف لینے والے یدی یورپا کو 14 ماہ قبل صرف3 دن کیلئے کرسی پر بیٹھنے کا موقع ملا تھا۔ لنگایت طبقہ کے مردآہن سمجھے جانے والے یدی یورپا کو ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کیلئے کڑی آزمائش سے گذرنا ہے۔ کل تک جو کھیل کانگریس، جنتادل ایس حکومت کو گرانے کیلئے کھیلا گیا تھا اگر یہی کھیل دوہرایا جائے تو کرناٹک کی سیاسی صورتحال ہی تبدیل ہوجائے گی۔ آئندہ چند دن میں ارکان اسمبلی کا موقف اور ان کا فیصلہ کیا ہوگا یہ تو خط اعتماد کے لئے ڈالے جانے والے دونوں سے معلوم ہوگا۔ کسی حکمراں پارٹی کے لئے ہر ایک کو مطمئن کرنا ممکن نہیں۔ یدی یورپا کو اپنی کابینہ میں وزراء کو شامل کرنے کیلئے بی جے پی کی مرکزی قیادت کی مرضی اور حمایت حاصل کرنی پڑے گی۔ اس سے یہ واضح اشارہ ملتا ہیکہ بی جے پی کو بہت جلد وسط مدتی انتخابات کا بھی سامنا کرنا پڑے۔ ابھی سے ہی بی جے پی کیمپ میں یہ ناراضگی پیدا ہوتی ہیکہ یدی یورپا نے باغی ارکان اسمبلی کو کابینہ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بی جے پی کے سرگرم ارکان اسمبلی کو اگر کابینہ میں جگہ نہ ملے تو وہ علم بغاوت بلند کریں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی بغاوت یدی یورپا حکومت کیلئے خطرہ بن جائے گی لیکن بی جے پی میں باغیانہ سرگرمیاں کم دیکھی گئی ہیں۔ کیونکہ مرکزی قیادت کے طاقتور موقف نے بی جے پی کے ہر طاقتور لیڈر کی کمر توڑ دی ہے۔ تاہم 105 بی جے پی ارکان میں سے کسی نہ کسی کو یدی یورپا حکومت سے شکایت ہوگی۔ بی جے پی کے برعکس کانگریس کی قیادت نے پارٹی کے باغیوں کو منانے پارٹی کے خلاف ایکشن لینے کا حوصلہ نہیں دکھایا نتیجہ میں آج کرناٹک کا اقتدار ہاتھ سے نکل گیا۔ کانگریس کو اپنی قیادت کے خلاء کو فوری دور کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ملک کی سب سے بڑی اور قدیم پارٹی کو ایک طاقتور سیاسی قوت کی ضرورت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ کانگریس میں تبدیلی لانے کیلئے ہی راہول گاندھی نے استعفیٰ دیا ہے تو ان کا متبادل تلاش کرنے میں تاخیر سے پارٹی کی ساکھ کمزور ہوجائے گی۔ کرناٹک کے سیاسی حالات سے بھی کانگریس پر برا اثر پڑے گا جو سارے ملک کیلئے غلط پیغام جائے گا۔ اگر اس بات کو تسلیم کرلیا جائے تو کہ یدی یورپا حکومت اپنی میعاد پوری کرلے گی تو یدی یورپا کو کٹھ پتلی حکمراں بننے سے گریز کرنا ہوگا۔ اگر عوام کے جذبہ کی پاسداری کی قدر کی جاتی تو کمارا سوامی حکومت کو گرانے کی کوشش نہیں ہوتی۔ کرناٹک کا سیاسی ماحول تشویشناک ہے۔ گذشتہ 14 ماہ کے دوران کرناٹک کے عوام کے سامنے سیاسی تحریک کے ذریعہ یدی یورپا نے یہ بات رکھنے کی کوشش کی کہ کمارا سوامی حکومت کو بہرحال بیدخل کرکے ہی دم لیا جائے گا۔ حکومت کی بساط الٹ گئی اور نئی حکومت نے عہدہ رازداری کا حلف بھی لے لیا۔ اب اس حکومت کو ایک بہتر حکومت دینے کی جانب بھی توجہ دینا ہوگا۔ عوام اس حکومت کی کارکردگی پر یقین تب ہی رکھیں گے جب انہیں یہ یقین ہوجائے کہ یہ ان کے حق میں بہتر ہے۔ کانگریس کے کئی قائدین کا احساس ہیکہ بی جے پی نے کرناٹک میں کانگریس کے ارکان کو خریدنے کیلئے بے تحاشہ روپیہ خرچ کیا ہے۔ یہ الزام سنگین ہے جس کی سی بی آئی کے ذریعہ تحقیقات ضروری ہے۔
معیشت اور جی ڈی پی میں اضافہ کا دعویٰ
ملک کی معیشت کی ابتری کی حقیقت کو پوشیدہ رکھتے ہوئے مرکز نے نئے جی ڈی پی میں سال 2011ء اور 2012ء کے بعد سے سب سے زیادہ ترقی کو ظاہر کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی 2004-05ء کے اعدادوشمار کو پیش کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اندرون ملک مجموعی پیداوار کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے لیکن ملک کی معاشی پیداوار اور صنعتی ترقی کی شرح میں بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ حال ہی میں آٹو پارٹس تیار کرنے والی کمپنیوں نے موٹر گاڑیوں کی تیاری اور فروخت کی شرح میں فرق کو واضح کرتے ہوئے تشویش ظاہر کی تھی کہ موٹر گاڑیوں کی فروخت کی رفتار سست ہوگئی ہے۔ آٹو موٹیو مینوفکچرنگ صنعتیں اس صورتحال سے باہر نکلنے کی کوشش کررہی ہیں لیکن ان کے سامنے کوئی متبادل راستہ نہیں ہے۔ اگر یہ صنعت انحطاط کا شکار رہے تو اس صنعت سے وابستہ 10 لاکھ ملازمتیں ختم ہوجائیں گی۔ ایک طرف مرکز کی نریندر مودی حکومت نے جی ڈی پی کی شرح کو زیادہ بتایا ہے دوسری طرف صنعتی اداروں کی شرح ترقی کو تشویشناک قرار دیا جارہا ہے۔ مودی حکومت کی پہلی میعاد کے دوران نوٹ بندی کے فیصلہ نے مارکٹ کی کمر توڑ دی تھی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ غیرمنتظم شعبہ کو نوٹ بندی کا شدید جھٹکہ لگا تھا جو آج تک سنبھل نہیں سکا۔ حکومت نے بھی ان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے کوئی متبادل اقدامات نہیں کئے۔ ملک کی معیشت کو دیکھتے ہوئے کئی ماہرین معاشیات نے یہ پیش قیاسی کی ہیکہ آنے والے برسوں میں بھی نوٹ بندی کے اثرات برقرار رہیں گے اور جی ڈی پی کی شرح گھٹ جائے گی تو حکومت اس سچائی کو زیادہ دن تک پوشیدہ نہیں رکھ پائے گی کہ ملک کی معاشی رفتار بری طرح سست ہوگئی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری ٹھپ ہے اور نئی صنعتوں کے قیام کے فیصد میں بھی کمی درج کی جارہی ہے جو ہندوستان کی مستقبل کی معیشت کیلئے تشویشناک ہے۔