اتحاد باللہ حقیقت کی اصل ہے

   

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی
روحانی طریقہ علاج کی بنیاد اعتقاد کی نشو نما کی پختگی پر رکھی گئی ہے، کیونکہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ فرد کا کردار (کسی عمل کا ردعمل ہوتا ہے) اس کے اعتقاد کا نتیجہ ہوتا ہے اور سوچنے کا عمل بھی اعتقاد کے تحت ہوتا ہے۔ اعتقاد فرد کے مشاہدہ، تجربات اور مسلسل تربیت سے وجود میں آتا ہے، یعنی کہ اعتقاد فرد کے داخلی (باطنی) اور خارجی دونوں عناصر کا مرکب ہے، یعنی وقوفی اور آموزشی عوامل کا نتیجہ ہے۔ اس کی روشنی انسان کے باطن سے پھوٹتی ہے اور ماحول و تربیت سے آگاہی بھی اسے جنم دیتی ہے۔ کسی بھی فرد کے اعتقاد کو جان کر ہم اس کے کردار کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ تبدیل بھی کرسکتے ہیں اور یہ تبدیلی مسلسل تربیت سے مستقل حالت میں ڈھل سکتی ہے، جس سے ہم فرد کے کردار کی پیشین گوئی بھی کرسکتے ہیں۔اعتقاد کا محرک عقل کی بجائے جذبہ ہوتا ہے، جو کہ جذبات، عقل، وجدان، حق الیقین اور مقصد حیات جیسے عناصر کا مرکب ہے، جو نفس اور عقل سے آگے قدم بڑھاتے ہوئے تسلیم و رضا، خود سپردگی اور ایثار و خلوص کی چاشنی سے لبریز ہوتا ہے۔
ولیم جیمس کا کہنا ہے کہ ’’روحانی جذبہ میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ اس سے زندگی میں ایک ایسی دلکشی پیدا ہوتی ہے، جس کو عقل یا منطقی طورپر کسی اور ماخذ سے اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ روحانی جذبہ زندگی کی قوتوں میں ایک زبردست اضافہ ہے، جس سے انسان میں ایک نئی قسم کی طاقت پیدا ہوتی ہے‘‘۔ یعنی نفس اور عقل کی قوت خوف زدہ ہوکر کمزور پڑسکتی ہے۔
اس کی منزل فانی لذت ہے، مگر جذبہ قوت ہر قسم کے خوف سے بالاتر ہے، کیونکہ اس کی منزل ابدی و روحانی مسرت ہے، جو کہ ذہنی صحت کا ایک بہترین معیار ہے۔ مسرت کی نوعیت جبلتی ہے، مگر آموزش و تربیت سے اس کا فضول حصول ممکن ہے۔ اگر آپ قنوطی انداز فکر ترک کرکے رجائیت کو اپنائیں تو آپ ابدی و روحانی مسرت سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔
انسان کے اندر توحید کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اللہ کا نور اس کے باطن میں جاری و ساری ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں انسان بلند مقامات (منزل حیات) کے عروج پر پہنچ جاتا ہے، جہاں پر کائنات کی تمام اعلی قوتیں اس کی معاون ہو جاتی ہیں اور وہ ہر قسم کی بیماری اور کمزوری پر مستقل فتح حاصل کرلیتا ہے۔ بقول ولیم جیمس: ’’تمام کمزوری، بیماری اور پستی کی اصل علت قوت الہی سے دوری اور جدائی کا احساس ہے، جب کہ اصل حقیقت اتحاد باللہ ہے‘‘۔جو شخص اپنے اندر ہر لمحہ نور الہی کے نفوذ کو محسوس کرے، اس پر کوئی ذہنی بیماری حملہ نہیں کرسکتی، جب کہ انسان کو خیر ازلی کے سواء کسی اور چیز کی خواہش نہ رہے۔ یعنی جو کچھ چاہے خدائے تعالی کے لئے چاہے تو اس کو اعلی ترین مسرت، راحت، سلامتی اور اطمینان حاصل ہو جائے گا۔