اتحاد ِ ملت وقت کا تقاضہ

   

عثمان شہید ، ایڈوکیٹ

تمام مسلمان ایک ہی ماں حوا کی اولاد ہیں۔ ایک ہی شاخ کے پھول ہیں۔ ایک ہی آسمان کے چاند اور تارے ہیں۔ ایک ہی خدا کو ماننے والے ہیں۔ ایک ہی آقا کونینؐ کے غلام ہیں۔ ایک ہی قبلے کی طرف سر جھکاتے ہیں۔ ایک ہی کعبے کو مانتے ہیں۔ منکر و نکیر کے سوالات کے جواب بھی دیں گے۔ ایک طریقے سے نماز پڑھتے ہیں۔ فروعی مسائل کو اہمیت نہیں دی جانی چاہئے۔ رنگ ایک جیسا، روپ ایک جیسا، خون ایک جیسا، کھانے پینے کے طریقے اور لباس ایک جیسے، تہذیب و تمدن زبان ایک جیسی ہیں پھر ہم میں یہ مصنوعی اختلافات کیوں؟ کیا وجوہات ہیں جس نے اسلام کا پیرہن ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور اتحاد کو پارہ پارہ کردیا اور اسلام کی بیخ کنی کی کوشش کی، کس کے ذہن کی سازش ہے یہ، جبکہ اتحاد زندگی ہے اور انتشار موت۔ ساری دنیا پر حکومت کرنے والا مسلمان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے۔ جبکہ مسلمان کی بقاء اس میں ہے کہ مسلمان ایک بنے رہیں۔ مسلمان نیک بنے رہیں۔ اتحاد کے بغیر کوئی قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہو ہی نہیں سکتی اور نہ ہی دشمنوں کا کامیابی سے مقابلہ کرسکتی ہے۔ ہر حملے کی ڈھال اتحاد ہے۔ انتشار قوم کو دیمک کی طرح کھوکھلا کردیتا ہے، وہ کمزور ہوجاتی ہے پھر صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔ سب اسلام کے پیرو ہیں۔ ہم دانستہ اختلافات پر روشنی نہیں ڈال رہے ہیں کہ یہ کیا ہے اور کس نے پیدا کئے، کیوں پیدا کئے، کیسے پیدا کئے تاکہ مزید ہوا نہ ملے جبکہ مسلکوں سے بالاتر ہوکر موجودہ حالات میں ہماری ایک ہی خواہش ہے کہ مسلمان حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک ہوجائیں جبکہ مثال مشہور ہے کہ ’’دو بلیوں کی لڑائی میں بندر کا فائدہ‘‘ ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اتحاد کے نعرے دل کی آواز بن جاتے، لیکن اس پر توجہ نہیں دی گئی، پھر دیکھتے ہیں ہم کیسے مضبوط ہوتے ہیں۔ چیونٹیوں میں اتفاق، مکھیوں میں اتفاق، آدمی ۔ آدمی کا دشمن عجب بات ہے کہ اتحاد کا درس دینے والے خود ہی اتحاد برباد کررہے ہیں۔
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین و ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی ایک قرآن بھی ایک
کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
بجائے اس کے ہم اختلافات کی خندق کو مزید گہرا کریں، اسے پاٹ دینے کی کوشش کریں۔ آج حالات خطرناک سے خطرناک ہورہے ہیں۔ بادِ مخالف کی تندہی ہمیں اُکھاڑ پھینکنے کی کوشش کررہی ہے۔ ایسے میں شجر اسلام سے وابستہ رہنا مسلمان کی شان ہے۔ دشمن کی تلوار بریلوی دیکھتی ہے نہ دیوبندی، تبلیغی دیکھتی ہے نہ اہل حدیث، شیعہ دیکھتی ہے ،نہ سنّی دیکھتی ہے ۔جمشید پور میں فسادات کے دوران بے شمار مسلمانوں کو گولیاں مار دی گئیں، بھیونڈی میں کئی مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا، کسی نے نہ پوچھا کہ تم شیعہ ہو کہ سنی، تم بریلوی ہوکہ دیوبندی۔
اُٹھو وگر نہ حشر ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
ہر دل میں زہر بھرا ہوا ہے۔ بس وقت کی دیر ہے۔ یہی زہر کبھی تلوار تو کبھی چاقو بن سکتا ہے۔ مت سمجھو میں کسی کا دوست ہوں تو بچ جاؤں گا۔ اصل دوست تو ’’اللہ‘‘ ہے۔ وہی اللہ حافظ ہے، وہی مارنے والا ہے، وہی بچانے والا ہے، دنیاوی اعتبار سے حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے اتحاد ہی تریاق ہے۔ اس دوری کے سیاہ اندھیرے میں کہیں سے اتحاد کی روشنی تو پھوٹی۔ کچھ دن پہلے اخبار ’’سیاست‘‘ میں یہ خبر شائع ہوئی کہ مسلمانوں میں اتحاد کیلئے جلسہ ہورہا ہے۔ ایسے ہی جلسے ہر محلے اور ہر گلی ہوں، بغیر کسی مذہبی مداخلت کے۔