خداحافظ ہے ایسی سلطنت کا
جہاں بن جائیں خود خادم ہی آقا
اترپردیش میں لا اینڈ آرڈر
ملک کی سب سے بڑی اور سیاسی اعتبار سے حساس ریاست اترپردیش میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال مسلسل ابتر ہوتی جا رہی ہے ۔ ریاست میں اب پولیس کی جانب سے لا اینڈ آرڈر کو بہتر بنانے کے نام پر انکاونٹرس کی پالیسی اختیار کی گئی ہے ۔ آئے دن ریاست کے کسی نہ کسی مقام پر انکاونٹر پیش آتا ہے جہاںپولیس کے مطابق جرائم پیشہ افراد کو گولیوں کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ چند دن قبل پولیس کی جانب سے سونبھدرا میںاپنی ہی زمینوں کیلئے اور اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے قبائلی عوام پر فائرنگ کردی گئی جس کے نتیجہ میں10 افراد ہلاک ہوگئے اور کئی دوسرے زخمی ہوگئے ۔ کئی مثالیں تو ایسی ہیں کہ ایک ہی گھر کا کوئی فردفائرنگ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تو کچھ دوسرے زخمی بھی ہوکر زیر علاج ہیں۔ ایک طرح سے اترپردیش میں آدتیہ ناتھ کی حکومت نے پولیس کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور یہ عذر پیش کیا جا رہا ہے کہ لا اینڈ آرڈر کو بہتر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پولیس کی جانب سے جو انکاونٹرس ہو رہے ہیں ان کی حقیقت پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں۔ یہ شکوک ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ پولیس انکاونٹرس کے ذریعہ اپنے مفادات کی تکمیل کر رہی ہے اور سیاسی ذمہ داروں کے عزائم بھی پورے ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اتنی کوششوںا ور انکاونٹرس کے باوجود ریاست میںجرائم کی شرح میں کوئی کمی نہیں آ رہی ہے ۔ آئے دن جرائم کے واقعات میںاضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ خاص طور پر لڑکیوں کی عصمت ریزی اور خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ ہورہا ہے ۔ قتل و غارت گری کے واقعات میںکوئی کمی نہیں آئی ہے ۔ اغوا کے معاملات عام بنتے جا رہے ہیں۔ جبری وصولی ہو یا پھر اراضیات پر قبضے ہوں ہر طرح کے جرائم میںاضافہ ہی درج ہوتا جارہا ہے ۔ قومی کرائم بیورو کے اعداد وشمار کے مطابق اترپردیش ملک کی تمام ریاستوں میںجرائم کی شرح میں سب سے آگے ہے ۔ چاہے کسی بھی نوعیت کے جرائم ہوں اترپردیش ان میں سب سے آگے ہے ۔ اس حقیقت سے حکومت کے دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے ۔
ریاست میں آدتیہ ناتھ کی حکومت نے ابتداء ہی سے یہ دعوی کیا تھا کہ اس کے دور میںلا اینڈ آرڈر کو بہتر بنایا جائیگا ۔ یو پی میں جب آدتیہ ناتھ نے حکومت سنبھالی تھی اس کے آغاز ہی میں انکاونٹرس کاسلسلہ شروع کردیا گیا تھا تاہم اس کے بعد کچھ مہینوں کیلئے انکاونٹرس کا سلسلہ رک گیا تھا لیکن اب یہ دوبارہ شروع کردیا گیا ہے ۔ یو پی پولیس ایسا لگتا ہے کہ ہتھیار چلانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے اسی لئے نہ صرف مجرمین بلکہ اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرنیو الوں کو بھی گولیوں کا نشانہ بنارہی ہے جس کی مثال سونبھدرا میںفائرنگ کی ہے ۔ حکومت کی جانب سے من مانی کارروائیاں کی جاتی ہیں ۔ اس کے باوجود لا اینڈ آرڈر کی صورتحال سنبھلنے کا نام نہیں لیتی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آدتیہ ناتھ کی حکومت لا اینڈ آرڈر کو برقرار رکھنے اور بحال کرنے میں پوری طرح ناکام ہوگئی ہے ۔ آدتیہ ناتھ چیف منسٹر بننے سے قبل ریاست میں لا اینڈ آرڈر پر اکثر تنقید کرتے تھے اور سابقہ حکومتوں کو نشانہ بنایا کرتے تھے لیکن اب خود ان کے دور اقتدار میںجرائم کی شرح پر کوئی قابو نہیں ہو رہا ہے اور آدتیہ ناتھ خاموش ہیں۔ ریاست کے تقریبا ہر ضلع میں یہی صورتحال ہے اور جہاںتک پولیس کے کچھ عہدیداروں کا رویہ ہے وہ بھی تاناشاہی والا ہوگیا ہے ۔ وہ عوام کو اپنی رعایا کے طور پر دیکھتے ہیں اور ان کے ساتھ ان عہدیداروں کا رویہ انتہائی ہتک آمیز اور توہین والا ہوتا ہے ۔
جہاں تک مجرمین کی بھی بات ہے تو پولیس کو اس بات کا حق نہیں ہے کہ انہیں گولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ۔ انتہائی استثنائی حالات میں ہوسکتا ہے کہ ایسا کرنا ضروری ہو لیکن ہر معاملہ میںانکاونٹر مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتا ۔ پولیس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مجرمین کے خلاف شکنجہ کسے ۔ انہیں گرفتار کرے ۔ ان کے خلاف مقدمات درج کرے ۔ ان کے خلاف ثبوت و شواہد کو جمع کیا جائے اور پھر انہیں عدالتوں میں پیش کردیا جائے ۔ عدالتیںثبوت و شواہد کا جائزہ لینے کے بعد فیصلے سناتی ہیں۔ یہ مروجہ طریقہ کار ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یو پی پولیس خود اپنے طور پر فیصلے کرنے لگی ہے اور انکاونٹرس کی پالیسی اختیار کرچکی ہے ۔ نہ انکاونٹرس کی پالیسی درست ہے اور نہ ریاست میںلا اینڈ آرڈر سدھر رہا ہے جس سے حکومت کی نااہلی کا پتہ چلتا ہے ۔