7 ہزار سے زیادہ مسلم آبادی والے دیہات میںمسلم ناموں میں دوبے ، مشرا ، پانڈے اورتیواری کا اِضافہ
لکھنؤ: دہری، جو مشرقی اتر پردیش کے ضلع جونپورکے صدر مقام سے تقریباً 35-40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک غیر معروف گاؤں ہے، ایک نایاب رجحان کی وجہ سے سرخیوں میں ہے۔ دہری ایک اکثریتی مسلم گاؤں ہے جہاں 7000 سے زائد مسلمان اور5000 ہندوکئی نسلوں سے مثالی ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ تاہم گاؤں میں اچانک ایک نیا رجحان ابھر رہا ہے۔ گاؤں کے تقریباً 70 مسلمانوں نے اپنے ناموں کے ساتھ برہمن ذات کے نام شامل کیے ہیں البتہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہندو دھرم میں واپس نہیں آئے ہیں۔گاؤں کے کریکٹ تحصیل کے رہائشی نوشاد احمد نے اس وقت توجہ حاصل کی جب انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی کے کارڈ پر اپنا نام نوشاد احمد دوبے لکھوایا۔ اسی گاؤں میں پنڈے جی یا ارشاد احمد پنڈے بھی رہتے ہیں، جو نوشاد احمد دوبے کے گھر سے صرف دو مکان دور رہتے ہیں۔ نوشاد اور ارشاد جیسے کئی دیگر افراد بھی اپنے ناموں کے ساتھ مشرا، پانڈے، تیواری جیسے برہمن سر نیم شامل کر رہے ہیں۔ نوشاد احمد کہتے ہیں، ہم نے یہ عمل دو سال پہلے شروع کیا جب ہمیں اپنی اصل نسل کے بارے میں معلوم ہوا۔ ہمیں پتا چلا کہ ہم سب ہندو تھے جو کئی نسلیں پہلے اسلام قبول کر چکے۔ انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں کھوج کی تو پتا چلا کہ ان کے آبا و اجداد، خاص طور پر لال بہادر دوبے، آٹھ نسل پہلے اسلام قبول کرکے شیخ بن گئے تھے۔ میرے خاندان کے بزرگوں کو لوگ ‘پنڈت جی’ کہہ کر پکارتے تھے۔نوشاد احمد دوبے اب گائے کے بھکت اور خدمت گزار بن چکے ہیں، لیکن ان کے خاندان میں کسی اور نے دوبے کا سرنیم اپنے نام کے ساتھ شامل نہیں کیا۔ اسی گاؤں کے احسن احمد کا دعویٰ ہے کہ ان کے آبا و اجداد بھی برہمن تھے، لیکن وہ اب تک اپنے نام کے ساتھ یہسرنیم شامل نہیں کر پائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کئی مسلمان مرد دیگر برہمن ذات کے سرنیم استعمال کرنے لگے ہیں اور گایوں کی دیکھ بھال بھی کر رہے ہیں۔ گاؤں کے پردھان، فرحان، نے بتایا کہ انہوں نے چار نسل پیچھے اپنے آبا و اجداد کا پتہ لگایا اور پتا چلا کہ وہ ہندو تھے۔ اسی طرح عبداللہ شیخ اب عبداللہ شیخ دوبے ہو چکے ہیں، محمد غفران اب ٹھاکر غفران کہلاتے ہیں۔ یہ تمام افراد اسلامی عبادات پر عمل کرتے ہیں لیکن مندروں میں جاکر ہندو دیوی دیوتاؤں کی پوجا بھی کرتے ہیں۔ یہ قرآن مجید کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں لیکن گاؤں کے مندر میں آرتی میں بھی شریک ہوتے ہیں۔