کردار خدا جانے کہاں ہوگئے معدوم
دنیا وہی، منظر وہی، قصہ بھی وہی ہے
اترپردیش ملک کی ایسی ریاست ہے جسے کئی اعتبارسے اہمیت حاصل ہے ۔ یہ ملک کی سب سے بڑی اور سیاسی اور فرقہ وارانہ اعتبارسے حساس ریاست ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ دہلی میںاقتدار کا راستہ لکھنو سے ہوکر جاتا ہے ۔ اسی لئے تمام سیاسی جماعتوںکی توجہ اترپردیش پر زیادہ ہوتی ہے ۔ ریاست میںدو علاقائی جماعتیں بھی ہیں جوو قفہ وقفہ سے اقتدار پر رہی ہیں۔ بی جے پی کو اب اقتدار حاصل ہے جبکہ کانگریس یہاں طویل وقت سے اقتدار سے محروم رہی ہے اور ریاست کی سیاست میںاس کا وجود زیادہ اہمیت کا حامل نہیں رہ گیا ہے ۔ اب جبکہ اترپردیش میںاسمبلی انتخابات کیلئے زیادہ وقت نہیںرہ گیا ہے ایسے میں تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابات کی تیاریوں کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ بی جے پی نے خود اپنے ارکان اسمبلی میںچیف منسٹر کے خلاف پائی جانے والی ناراضگی کو دور کرنے عملا جنگی خطوط پر اقدامات کئے ہیں۔ کسی طرح صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے اور یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ریاست میں بی جے پی کیلئے سب کچھ ٹھیک ہے جبکہ حقیقت میں ایسا دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ اب انتخابات کے وقت کو دیکھتے ہوئے چیف منسٹر بھی زیادہ تر عوام میںدکھائی دینے لگے ہیںاور کچھ نہ کچھ بیان بازیوں کا سلسلہ بھی شروع کرچکے ہیں۔ انہوں نے اب یہ دعوی کیا ہے کہ ریاست میںایسی ترقی ہوئی ہے کہ یہ نہ صرف ہندوستان بھر کیلئے بلکہ دنیا کیلئے بھی ایک مثال بن گئی ہے ۔ یہ دعوے کھوکھلے اور عوام کو بیوقوف بنانے والے ہیں۔ ویسے تو بی جے پی کے تمام ہی قائدین صورتحال کے برعکس بیانات دینے اوراس پر ڈٹے رہنے کیلئے شہرت رکھتے ہیں لیکن جہاں تک چیف منسٹر اترپردیش آدتیہ ناتھ کی بات ہے تو وہ اس معاملے میں سب سے دو قدم آگے ہیں۔ انہوںنے صورتحال کو سمجھنے اور پرکھنے کی بجائے بے بنیاد دعوے شروع کردئے ہیں۔ ریاست میں عوام کی جو حالت ہے اور کورونا وباء اور اس کے بعد اور اس سے پہلے بھی جو صورتحال رہی ہے وہ ساری دنیا پر عیاں ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کی بجائے اس کی نفی کرتے ہوئے صورتحال دنیا بھر کیلئے مثال ہونے کے دعوے کئے جا رہے ہیں ۔
ساری دنیا نے دیکھا کہ اترپردیش میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران کیا کچھ تباہی آئی ہے ۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ گنگا ندی میںانسانوںکی نعشیں بہتی ہوئی بہار تک چلی گئیں ۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ کورونا وباء کے دوران ریاست کے عوام کے پاس اپنے رشتہ داروںکو نذر آتش کرنے کیلئے لکڑی وغیرہ تک دستیاب نہیںتھی ۔ ایسے میں یہ لوگ اپنے رشتہ داروں کی نعشوںکو ریتی میں دبا کر چلے جانے کیلئے مجبور ہوگئے تھے ۔ حکومت کی جانب سے انہیںتسلی کے دو الفاظ تک نہیںبولے گئے تھے ۔ اترپردیش کے دواخانوںمیںآکسیجن کی قلت کی وجہ سے اموات کے بھی دعوے کئے گئے ہیں۔ ایک دواخانہ میں تجربہ کے طور پر مریضوں کی آکسیجن نکال دی گئی جس سے بھی کئی اموات ہوئیں۔ ریاست میں عوام کے پاس نہ روزگار باقی رہ گیا ہے اور نہ ہی ملازمتیں مل رہی ہیں۔لوگ دو وقت کی روٹی کیلئے پریشان ہیں۔ ادویات تک انہیںآسانی سے نہیںمل پا رہی ہیں۔ رہی سہی کسر مہنگائی نے پوری کردی ہے ۔ پٹرول ‘ ڈیزل اور پکوان گیس کی قیمتوں میںاضافہ کے نتیجہ میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ ریاست کے عوام خاموشی کے ساتھ یہ پریشانیاں اور مسائل جھیلنے کیلئے مجبور ہوگئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کوئی امداد انہیںنہیںمل پائی ہے ۔ ایسے میںچیف منسٹر کی جانب سے یو پی کی صورتحال کو مثالی قرار دینا مضحکہ خیز ہی کہا جاسکتا ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ چیف منسٹر ہوں کہ ریاست کے وزراء ہوں یا پھر بی جے پی کی اعلی قیادت ہو ‘ سبھی ریاست میںصورتحال کو محسوس کریں۔ حقیقت پسندی سے جائزہ لیں۔ اس بات پر بھی غور کیا جائے کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار میں اترپردیش سب سے اوپر کیوںہے ۔ کیوںریاست میںجرائم کم نہیںہوئے ہیں۔کیوںاترپردیش میںعوام انتہاء سے زیادہ مسائل کا شکار ہیں۔ ساری صورتحال کو محسوس کرتے ہوئے حالات کو بہتر بنانے کیلئے پروگرام تیار کیا جائے ۔ عوام کو تسلی اور دلاسہ دیا جائے کہ حکومت ان کی بہتری کیلئے اقدامات کرے گی ۔ تاہم ایسا کرنے کی بجائے بے بنیاددعوے کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے کی کوششیںہو رہی ہیں جو عوام کیلئے قابل قبول نہیںہوسکتیں۔ حکومت کو اپنی روش بدلنے کی ضرورت ہے ۔
