۔ 6 سال پرانے ویڈیو پر تبدیلی مذہب کا الزام، خصوصی تحقیقاتی ٹیم کا قیام
مذہب کی بنیاد پر عہدیدار نشانہ، دفاتر سے مذہبی تصاویر ہٹائی جائیں : اسد اویسی
حیدرآباد۔/29 ستمبر، ( سیاست نیوز) ملک میں مسلم مذہبی رہنماؤں اور دینی اداروں کو مختلف عنوانات سے ہراسانی کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے میں اب اہم عہدوں پر فائز مسلم عہدیداروں کو بھی منصوبہ بند انداز میں نشانہ بنانے کی تیاری کرلی گئی ہے۔ اتر پردیش حکومت کی جانب سے تبدیلی مذہب کے الزام کے تحت مولانا کلیم صدیقی اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری کے بعد تازہ ترین معاملہ میں اتر پردیش کے ایک سینئر آئی اے ایس عہدیدار محمد افتخار الدین کو نشانہ بنایا گیا۔ حکومت نے ان کے خلاف جانچ کیلئے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے۔ 6 سال پرانے ایک ویڈیو کو بنیاد بناکر محمد افتخار الدین پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ تبدیلی مذہب کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ اپنی سرکاری رہائش گاہ میں ایک اجتماع کے دوران آئی اے ایس عہدیدار پر تبدیلی مذہب کی ترغیب کا الزام عائد کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ جو ویڈیوز تحقیقات کیلئے بنیاد بنائے گئے وہ دراصل 2007 اور 2018 کے درمیان کے ہیں۔ 1985 بیاچ سے تعلق رکھنے والے محمد افتخار الدین نے مختلف عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں۔ وہ فی الوقت یو پی روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے سربراہ ہیں۔ ڈپٹی میئر اجمیر میونسپل کارپوریشن راجستھان نیرج جین نے سب سے پہلے ٹوئٹر پر یہ ویڈیوز شیئر کرتے ہوئے مسلم آئی اے ایس عہدیدار پر تبدیلی مذہب کی حوصلہ افزائی کا الزام عائد کیا۔ سدرشن نیوز کی جانب سے بھی یہ ویڈیو سوشیل میڈیا میں پیش کیا گیا اور یہ چیانل مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کیلئے شہرت رکھتا ہے۔ اتر پردیش کے ہوم ڈپارٹمنٹ نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے بتایا کہ ڈائرکٹر جنرل پولیس رتبہ کے عہدیدار کی قیادت میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم اس معاملہ کی جانچ کرتے ہوئے اندرون سات یوم رپورٹ پیش کرے گی۔ قبل ازیں ڈپٹی چیف منسٹر اتر پردیش کیشو موریا نے کہا تھا کہ آئی اے ایس عہدیدار کے ویڈیو معاملہ کو ریاستی حکومت سنجیدگی سے لے گی اور اس معاملہ کی جانچ کے بعد ضروری کارروائی کی جائے گی۔ اسی دوران مجلس کے صدر اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے مسلم آئی اے ایس عہدیدار کے خلاف تحقیقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ویڈیو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھا جارہا ہے اور یہ ویڈیو اس وقت کا ہے جب بی جے پی اقتدار میں نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ مذہب کی بنیاد پر نشانہ بناتے ہوئے ہراساں کرنے کا ہے۔ اگر حکومت کا معیار یہ ہے کہ کوئی عہدیدار مذہبی سرگرمیوں سے وابستہ نہ رہے تو پھر سرکاری دفاتر میں مذہبی نشانات اور تصاویر پر پابندی عائد کی جائے۔ انہوں نے کہاکہ اگر صرف عقیدہ کی بات اپنے گھر میں کرنا بھی جرم ہے تو پھر ان تمام عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی جائے جو عوامی، مذہبی تقاریب میں حصہ لیتے ہیں۔ر