معلوم نہیںپھر ہوں کہ نہ ہوں اک بزم میں ہم اور وہ یکجا
اے گردشِ دوراں تجھ سے ذرا دامن ہے بچانا آج کی شب
ملک میں بدلے ہوئے سیاسی منظر نامہ اور حالات نے ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی اپنا لب و لہجہ تبدیل کرنے پر مجبور کردیا ہے ۔ آج پارلیمنٹ سشن کے آغاز پر وزیر اعظم نے جو اظہار خیال کیا ہے اس سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ وزیر اعظم تبدیل شدہ حالات کو سمجھ چکے ہیں اور اس کے مطابق اظہار خیال کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان کا کانگریس پر تنقید والا ترش و طنزیہ لہجہ برقرار ہے لیکن وہ بحیثیت مجموعی اپوزیشن کے وجود کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اپنے آج کے خطاب میں نریندرمودی نے کہا کہ ان کی حکومت پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دونوں ہی جگہ اتفاق رائے پیدا کرتے ہوئے کام کرنے کی کوشش کرے گی ۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کے عوام نے اپوزیشن کو بھی تعمیری کام کاج کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے اور انہیں محض نعرہ بازی یا ایوان کی کارروائی میں رکاوٹ پر ہی توجہ نہیںدینیچ اہئے ۔ مودی نے جس طرح کہا کہ ان کی حکومت پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دونوں ہی جگہ اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرے گی تو یہ وزیر اعظم کی زبان سے ادا ہونے والے نئے جملے ہیں کیونکہ ملک نے ان کی دو معیادوں کو بھی دیکھا ہے ۔ دونوں ہی معیادوں میں وزیر اعظم کا لب و لہجہ انتہائی مختلف تھا ۔ بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ بسا اوقات ان کا لب و لہجہ آمرانہ ہوگیا تھا اور انہوں نے کبھی بھی اپوزیشن کے وجود کو تسلیم تک نہیں کیا تھا ۔ پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر کبھی بھی اپوزیشن کی اہمیت تسلیم نہیں کی گئی تھی ۔ کئی قوانین پر ایوان میں مباحث تک کروانے سے گریز کیا گیا تھا اور محض ندائی ووٹ سے ایسے قوانین تک منظور کرلئے گئے تھے جن پر ایوان میں تفصیلی مباحث ہونے چاہئے تھے ۔ اپوزیشن کی رائے لی جانی چاہئے تھی ۔ اس پر غور کرتے ہوئے بعض تجاویز وغیرہ کو قبول کیا جانا چاہئے تھا ۔ یہ فراخدلی کا مظاہرہ ہوتا ۔ تاہم ایسا بالکل نہیں کیا گیا ۔ جس طرح سے پارلیمنٹ میں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ تیور اختیار کیا کرتے تھے وہ اب بھی سب کو یاد ہے ۔ کسی کو خاطر میںلائے بغیر محض حکم جاری کرنے کو حکمرانی سمجھا گیا تھا جو جمہوریت میں نہیںہونا چاہئے تھا ۔
گذشتہ دونوں ہی معیادوں میں بی جے پی اور مودی کو اپنے بل پر اکثریت حاصل تھی ۔ پہلی معیاد سے زیادہ دوسری معیاد میں پارٹی کو اکثریت حاصل ہوئی تھی اور دوسری معیاد ہی میں کئی متنازعہ فیصلے کروائے گئے ۔ پارلیمنٹ میںمباحث کی روایت کو عملا ختم کردیا گیا تھا ۔ اپنے طور پر فیصلے کرتے ہوئے ان پر عمل آوری شروع کردی گئی تھی ۔ اپوزیشن کو کسی مسئلہ پر اظہار خیال کرنے تک کا موقع نہیں دیا گیا تھا ۔ ان کی رائے کو خاطر میں لانے حکومت بالکل تیار نہیں تھی ۔ اب تاہم ایسا لگتا ہے کہ صورتحال تبدیل ہوگئی ہے ۔ سیاسی اعتبار سے بی جے پی کی طاقت میں کمی آئی ہے ۔ پارلیمنٹ میں اس کے ارکان کی تعداد گھٹ گئی ہے ۔ اسے اپنے بل پر سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں رہ گئی ہے ۔ اسے اب اپنی حلیف جماعتوں کے سہارے حکومت چلانی ہے ۔ حلیف جماعتوں میں بھی چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار ہی اہمیت کے حامل ہیں اور دونوں ہی قائدین اپنے اپنے نظریات کی وجہ سے بی جے پی سے کئی مسائل پر اختلاف کرسکتے ہیں اور ساتھ ہی اپوزیشن سے نا مناسب سلوک اور رویہ کو بھی شائد یہ لوگ برداشت نہ کریں۔ ایسے میں مودی کے لب و لہجہ میں تبدیلی پیدا ہونے لگی ہے ۔ سیاسی مخالفین پر تنقیدیں اور الزامات سیاست کا حصہ ہیں اور اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہے لیکن اپوزیشن کے وجود ہی سے انکار کردینا یا اپوزیشن کو خاطر میں لائے بغیر من مانی فیصلے کرنا یہ جمہوری روایات کے مغائر تھا اور اب شائد حکومت کو اس بات کو سمجھنا پڑے گا ۔
جہاں تک کانگریس کی بات ہے تو ملک کو یاد ہے کہ بی جے پی نے کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دیا تھا ۔ اسی کے تحت پارٹی کو نشانہ بنایا گیا تھا ۔ راہول گاندھی کے خلاف ہزاروں کروڑ روپئے خرچ کرتے ہوئے منفی مہم چلائی گئی ۔ انہیںرسواء کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی تھی ۔ تاہم یہ جمہوریت ہے ۔ ملک کے عوام نے اس نعرہ کو قبول نہیں کیا ۔ کانگریس کی عددی طاقت لوک سبھا میں تقریبا دوگنی ہوگئی ہے ۔ بی جے پی کو نقصان ہوا ہے ۔ جمہوریت نے واضح کردیا ہے کہ کوئی اقتدار پر یا کوئی اپوزیشن میںمستقل نہیں ہے ۔ ایسے میں واقعتا اتفاق رائے پیدا کرنے پر ہی توجہ دینا چاہئے اور یہی وقت کی ضرورت ہے ۔