اجتماعی عصمت ریزی اور قتل کے مجرمین کی غیرقانونی رہائی !!

   

روش کمار

گجرات فسادات2002ء کے دوران 19 سالہ حاملہ خاتون بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت ریزی اور اس کے ارکان خاندان کے قتل کے جرم میں خاطی قرار دیئے گئے 10 مجرمین کو ایک ایسے مقدس و پرمسرت دن رہا کردیا گیا جب ساری قوم ہندوستان بھر میں 75 واں جشن یوم آزادی منا رہی تھی۔ یہ وہ مبارک دن ہے جب ہمارے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل ہوئی تھی لیکن مرکز اور ریاست میں برسراقتدار پارٹی نے ان زانیوں اور قاتلوں کو عام معافی کے تحت رہا کردیا جس پر ہر کوئی حیران و پریشان ہے کہ آخر ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔بہرحال اس مقدمہ میں سزائے عمر قید کاٹ رہے 10 قیدیوں کو رہا کردیا گیا اور اس سے پہلے وزیراعظم نریندر مودی تاریخی لال قلعہ کی فصیل سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپیل کرتے ہیں کہ کسی نہ کسی وجہ سے ایسا ہورہا ہے اور ہم میں یہ بگاڑ پیدا ہوا ہے کہ ہماری بات چیت میں ہمارے کچھ الفاظ میں ہم خواتین کی توہین کرتے ہیں، کیا ہم اس برائی سے نجات پانے کا عہد لے سکتے ہیں؟ لفظوں سے جان چھڑانے کا عزم ابھی لوگوں تک نہ پہنچا ہوگا۔ جیل سے باہر آکر وہ بڑی شان سے کھڑے ہیں۔ ان کے قدم چھوئے جارہے ہیں تاکہ قتل اور اجتماعی عصمت ریزی کے ان مجرمین سے آشیرواد حاصل ہو۔ اس کے بعد انہیں مٹھائیاں کھلائی گئیں۔ اتنا کافی نہیں تھا، اس لئے خواتین نے ٹیکہ لگاکر استقبال کیا اور عصمت ریزی کے خاطیوں نے اپنے ماتھوں پر ٹیکے بھی لگوائے۔ روایت اپنی جگہ ہوتی ہے لیکن جرم اور اس سے جاری ذہنیت اپنی جگہ ہے۔ جیل سے باہر آکر آشیرواد دینے والے ان مجرمین کے نام یہ ہیں: بپن چندر جوشی، شپلش بھٹ، رادھے شیام بکا بھائی، ووینیا، کپشر بھائی ووینیا، جسونت نائیگوندا نائی، پردیپ موردھیا، راجو بھائی سونی منیش بھٹ اور رمیش چندرا، عصمت ریزی اور قتل مقدمہ میں سزا کاٹ رہے ان قیدیوں کو 15 اگست کے دن خصوصی رہائی ملی۔ اس سے 15 اگست کی اہمیت یقینا بڑھ جاتی ہے۔ آپ کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ حکومت گجرات کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو عام معافی دینے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ ایک مشاورتی کمیٹی اور ضلعی سطح کا انتظامیہ تجاویز پیش کرتا ہے اور میرٹ کی بنیاد پر قیدیوں کو عام معافی دی جاتی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مہاتما گاندھی کی 150 ویں یوم پیدائش کے موقع پر جب قیدیوں کو خصوصی معافی دینے کا فیصلہ کیا گیا تب اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ ایسے مقدمات کے قیدیوں کو رہا نہ کیا جائے یعنی عصمت ریزی جیسے سنگین جرائم کے مرتکب قیدیوں کو عام معافی سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ آپ اس ضمن میں پی آئی بی سے 18 جولائی 2018ء کو جاری کردہ صحافتی اعلامیہ دیکھ سکتے ہیں۔
مودی حکومت کی کابینہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کونسے مقدمات میں سزا بھگت رہے قیدیوں کو معافی دی جائے گی اور کن قیدیوں کو معافی نہیں دی جائے گی۔ خاص طور پر سیاسی قائدین کو اس عام معافی کے دائرہ سے باہر رکھا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ وزارت داخلہ ریاستی حکومتوں کیلئے ہدایات جاری کرے گی کہ کون سے قیدی عام معافی کے مستحق نہیں ہیں۔ عام معافی کے تحت رہا کئے جارہے قیدیوں کے تعلق سے لکھا گیا تھا کہ ان قیدیوں کو 2 اکتوبر 2018ء اور 2 اکتوبر 2019ء کو رہا کیا جائے گا۔ ان میں سے کچھ قیدیوں کو 10 اپریل 2019ء کو رہا کیا جائے گا۔ ان میں سے بعض کی 2019ء کو چمپارن ستیہ گرہ کے موقع پر رہائی عمل میں آئے گی۔ مرکزی حکومت نے یہ بھی واضح کردیا تھا کہ قتل کے جرم میں سزائے عمر قید پانے والے قیدیوں کو خصوصی معافی نہیں دی جائے گی، عصمت ریزی کے مجرمین کو بھی یہ معافی نہیں دی جائے گی۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ عام معافی قانونی انصاف کا جز لازمی ہے اور قیدیوں کو اس نظام سے استفادہ کا موقع ضرور دیا جاتا ہے اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ مرکزی و ریاستی حکومتیں سزاؤں کی مدت میں بھی کمی کرتی رہتی ہیں۔ معافی دیتی رہتی ہیں۔ اس ضمن میں آپ کو بتادیں کہ خود سپریم کورٹ نے اکتوبر 2021ء میں کہا تھا کہ جس نے آدھی سزا کاٹ لی ہے، اس کی معافی کی درخواست پر جلد از جلد غور کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ سے اعداد و شمار بھی طلب کئے تھے کہ ایسے کتنے مقدمات زیرالتواء ہے۔ اس کے بعد بھی جب مودی حکومت کی کابینہ 2018ء میں عام معافی کا فیصلہ کرتی ہے تو اس بات کا خیال رکھتی ہے کہ سنگین جرائم کے مقدمات میں سزا یافتہ قیدیوں کو معافی نہ ملے۔ نہ صرف سال 2018ء میں یہاں تک کہ 2022ء میں بھی جس پالیسی کا اعلان کیا گیا، اس میں اس بات کا واضح اظہار کیا گیا کہ قتل اور عصمت ریزی کے مجرمین کو معافی نہ دی جائے۔ جاریہ سال آزادی کے امرت مہااتسو کے موقع پر بھی قیدیوں کو خصوصی معافی دینے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اس میں بھی سنگین مقدمات میں سزا بھگت رہے قیدیوں کو معافی دینے کی بات نہیں کی گئی اور یہ ہدایت یا حکم مرکز نے ریاستی حکومتوں کو روانہ بھی کیا۔ اس کے باوجود حکومت گجرات نے بلقیس بانو کیس میں سزا کاٹ رہے قیدیوں کو خصوصی معافی دے دی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ مرکزی حکومت نے اس تعلق سے 10 جون 2022ء کو تمام ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام علاقوں کے محکمہ داخلہ کے پرنسپال سیکریٹریز اور جیلوں کے سربراہوں کے نام ایک حکم نامہ جاری کیا۔ اس میں بھی واضح طور پر لکھ دیا گیا کہ کونسے مقدمات میں سزا کاٹ رہے قیدیوں کو خصوصی معافی نہیں دی جانی چاہئے۔ اب ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ جن قیدیوں کو بلقیس بانو کے کیس میں مخصوص معافی دی گئی ہے، وہ 1992ء کی پالیسی کے تحت معافی طلب کرچکے ہیں۔ گرفتاری کے وقت قانون کا اطلاق ہوتا ہے، پھر مرکزی حکومت عام معافی کی شرائط کیوں طئے کرتی ہے کہ کس کو عام معافی ملے گی اور کس کو نہیں اور ریاست کو حکم نامہ کیوں بھیجتی ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے؟ کیونکہ جن کو آج قتل اور زنا بالجبر کے کیس میں سزا ہوچکی ہوگی، انہیں یقینا معافی نہیں ملے گی۔ ظاہر ہے کہ مرکز کی اس ہدایت کا فائدہ ان قیدیوں کو نہیں ملے گا جن کی گرفتاری کے وقت کچھ اور اصول تھے۔ اس سلسلے میں بہت سے قانون اور تیکنیکی پہلو ہوں گے، اسی لئے ہم عجلت میں کہنے کے بجائے یہ سوال کررہے ہیں کہ کیا بلقیس بانو کے معاملے میں مرکزی حکومت کی ہدایت کا اطلاق ہوتا ہے؟