نئی دہلی۔اجتماعی مزاحمت کے جامعہ ملیہ اسلامیہ (جے ایم ائی)کے باہر کئی چہرے ہیں‘ سڑک سے منسلک ایک عارضی لائبریری‘ ایک چھوٹا تمثیلی تحویلی مراکز‘ آرٹ کا ایک کارنر‘
جہاں پر طلبہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پوسٹرس تیار کررہے ہیں‘اور ایک شہہ نشین جو مختلف آرٹسٹوں‘ مصنفوں اور سیاسی قائدین کی ہر روز نمائندگی کرتا ہے۔
حال ہی میں یہاں پر ایوارڈ جیتنے والی مصنفہ اروندتی رائے یہاں پرائی تھیں۔
اس سے قبل اداکارائیں ذیشان ایوب‘ سوارا بھاسکر‘ جہدکار ہرش مندر‘ موسیقی کار حسین حیدری اور اکیڈیمک زویا حسن نے طلبہ کے ساتھ اظہاریگانگت کے لئے اسٹیج شیئر کیا تھا۔
جامعہ کے باہر طلبہ کا احتجاج 12ڈسمبر کے روز شروع ہوا‘ مذکورہ روزسی اے اے راجیہ سبھا میں منظور ہوا تھا۔مگر نئے قانون کے خلاف احتجاج کے مرکز کے طور پر یونیورسٹی کی شناخت15ڈسمبر کے روز سے ہی ہوا ہے۔
دہلی پولیس زبردستی کرتے ہوئے جامعہ میں داخل ہوئی‘ اس کی لائبریری‘ واش روم میں مارپیٹ کی جس کے بعد قومی سرخیو ں میں جامعہ آگئی تھی۔ کئی طلبہ اس واقعہ میں زخمی بھی ہوئی‘ جس میں سے ایک یادوطلبہ کی بینائی بھی متاثرہوئی تھی۔
یونیورسٹی کے گیٹ نمبر3کے باہر بھوک ہڑتال پر بیٹھی ایک لڑکی نے کہاکہ ”جامعہ ایک نیا جنتر منتر ہے“۔
پچھلے نو دنوں سے ”زنجیری بھوک“ ہڑتال پر بیٹھے پانچ لوگوں میں سے کومیل فاطمہ بھی لاء اسٹوڈنٹ کی سال دوم کی طالب علم ہیں۔مذکورہ طلبہ سات گھنٹوں تک بھوک ہڑتال پر بیٹھتی ہیں پھر کوئی دوسرے ان کی جگہ لے لیتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ”عدم تشدد کا ہم نے نظریہ مہاتما گاندھی سے اخذ کیاہے۔ہماری یہ لڑائی ائین کے لئے ہے‘ جو مذہب‘ ذات پات او رفرقہ سے بالاتر ہوکر ہمارے ساتھ یکسانیت کے رویہ جو یقینی بناتا ہے“۔
فاطمہ نے کہاکہ ”ائین میں شامل سکیولر اصولوں پر ایک کارضرب“ یہ سی اے اے ہے۔ جے ایم ائیجس کا کوئی طلبہ یونین نہیں ہے‘ نے تاہم جامعہ کوارڈنیشن کمیٹی(جے سی سی) کی تشکیل عمل میں لائی ہے تاکہ احتجاجی حکمت عملی تیار کرسکیں۔
فی الحال جے سی سی کے مختلف محکمہ ہیں جس میں ہجوم‘ ٹریفک‘ میڈیا اور اسٹیج کے انتظامات شامل ہیں۔ پالی ٹیکنیک کے ایک طا لب علم ارباز میواتی نے کہاکہ ”مذکورہ طلبہ کا یہ احساس ہے کہ پرسکون انداز میں احتجاجی انتظام کو انہیں منظم کرنا ہے۔
قریب ہم ایک سو ممبرس ہیں جو فیصلہ لیتے ہیں‘ مگر اس میں اضافہ ہوگا۔ہمارے پاس بھی چوبیس گھنٹے لوگ آرہے ہیں جو رضاکارانہ طور پر چوبیس گھنٹوں تک کام کرنے کے خواہاں ہیں“۔
اوکھلا بھی ان کی حمایت میں ہے اور جامعہ ایک دوسرے جنتر منتر کی شکل اختیارکرچکا ہے