قدریں جو اپنا مان تھیں ، نیلام ہوگئیں
ملبے کے مول بک گئی ، تعمیر جو بھی تھی
!احتجاج اور تنقیدیں گراں گذرتی ہیں
مودی حکومت کی عالمی سطح پر ہونے والی رسوائی اور بعض ملکوں میں کئے جانے والے ریمارکس سے ہندوستان کی شبیہ متاثر ہورہی ہے۔ زرعی قوانین کے مسئلہ پر کسان برادری سراپا احتجاج ہے۔ اس احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے برطانوی اور کناڈا کے قائدین نے مودی حکومت پر تنقید کی۔ خاص کر وزیراعظم کناڈا جسٹن ٹروڈو نے احتجاجی کسانوںکی تائید کی۔ اس کے بعد مودی حکومت نے چراغ پا ہوکر دہلی میں تعینات کناڈا کے سفیر کو طلب کیا اور کہا کہ کسی ملک کے سربراہ کا دوسرے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنا مناسب نہیں۔ اگر وزیراعظم کناڈا کا رویہ اسی طرح برقرار رہے تو ہندوستان اور کناڈا کے تعلقات متاثر ہوں گے۔ مودی حکومت نے کناڈا کو دھمکی دیتے ہوئے بیرون ہند مودی حکومت کی بدنامی کا غصہ اتارنا چاہا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ ہندوستان کے مسائل اور عوام کے احتجاج پر بیرون ہند کوئی تبصرہ ہی نہ کریں۔ مودی حکومت کو صرف خوش آمدی لوگ پسند ہیں۔ یہ حکومت اپنے خلاف تنقید کو قطعی برداشت نہیں کررہی ہے۔ ہوسکتا ہیکہ وزیراعظم کناڈا نے عدم معلومات کی بنیاد پر تبصرہ کیا ہو لیکن یہ حقیقت تو کسی بھی ملک سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی کہ ہندوستان کے اندر کیا ہورہا ہے۔ کسانوں کی جانب سے بڑے پیمانہ پر احتجاج ایک تشویش کی بات ہے۔ سارے ملک کے لئے اناج پیدا کرنے والے کسانوں کو آج ان کی ہی زمین پر اگائے جانے والی فصلوں پر ان کا حق نہیں ہوگا تو یہ ایک المیہ کہلائے گا۔ بی جے پی حکومت نے کسانوں کو بے سہارا کرکے کارپوریٹ گھرانوں کو سہارا دینے کا قانون بنایا ہے تو بلاشبہ کسان طبقہ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوگا اور آج دہلی کی سرحدوں پر جو کچھ ہورہا ہے وہ کسانوں کے ساتھ ہورہی زیادتیوں کو روکنے کیلئے ہے۔ اس نازک مسئلہ پر غور کرنے کیلئے بی جے پی ہرگز تیار نظر نہیں آتی۔ بی جے پی حکومت کو یہ بھی سمجھ نہیں آرہی ہے کہ اس کی پالیسیوں سے ملک کی سب سے بڑی آبادی کو نقصان ہورہا ہے۔ مودی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے کناڈا کے وزیراعظم اکیلے نہیں ہیں بلکہ کئی بیرونی قائدین نے اس مسئلہ کو عالمی بنایا ہے۔ برطانیہ، آسٹریلیا، کناڈا اور امریکہ کے ری پبلکن پارٹی قائدین نے بھی کسانوں کے حق میں آواز اٹھائی ہے۔ ایک صحتمند جمہوری نظام میں احتجاج کرنے کی اجازت ہے لیکن بی جے پی حکومت نے پرامن احتجاجی کسانوں کو پولیس کی مدد سے ظلم کا شکار بنایا۔ انہیں دہلی آنے سے روکنے کیلئے سرحدوں پر رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔ اگر مودی حکومت یہ سمجھتی ہیکہ وہ جو کچھ کررہی ہے درست ہے تو پھر یہ کسان اس طرح سڑکوں پر کئی دنوں سے اپنا گھر بار چھوڑ کر احتجاج کیوں کررہے ہیں۔ ہندوستان میں کسانوں یا عام آدمی کے مسائل کی حکومت کو فکر ہی نہیں ہے۔ اس حکومت کے تعلق سے یہ بھی کہا جارہا ہیکہ یہ تو صرف کارپوریٹ گھرانوں کی حکومت ہے۔ کسانوں کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے مودی حکومت کی کوتاہیوں پر اگر کوئی بیرونی قائد تنقید کرتا ہے تو اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہیکہ آخر کسی بیرونی لیڈر کو ہندوستان کے داخلی معاملوں میں مداخلت کی کیا وجہ ہے۔ وزیراعظم کینیڈا یہ احتجاج غیرضروری اور ہندوستان کے داخلی معاملوں میں بیجا مداخلت ہوسکتا ہے لیکن انہوں نے اس سے پہلے بھی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں بھی ہندوستان کی کسان سبسیڈی کو چیلنج کیا ہے اور ہندوستان کی اقل ترین امدادی قیمت کی بھی مخالفت کی ہے۔ کناڈا میں ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے۔ اس لئے ہندوستان کے اندرونی معاملات کو اندرونی نہیں سمجھا جاتا۔ زرعی قوانین کی مخالفت ہورہی ہے تو اس میں ضرور کچھ نہ کچھ اہم بات ہے لیکن مودی حکومت اپنی شرارتوں سے باز نہیں آرہی ہے۔ ملک کے مختلف گوشوں سے تشویش کے اظہار کے باوجود مودی حکومت کو اپنے کام پر فخر ہے۔ برسوں سے ترقی یافتہ ممالک نے ڈبلیو ٹی او میں ہندوستان کی غذائی سبسیڈی کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ اس لئے مودی حکومت کو اپنی پالیسیوں پر غور کرتے ہوئے ان میں ترمیم کرنی چاہئے۔ کسانوں کے ساتھ ہورہی بات چیت کے دوران اگر زرعی قوانین میں ترمیم لانے کا اعلان کیا جائے تو کسانوں کا یہ احتجاج ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
سی سی ٹی وی کیمروں کیلئے سپریم کورٹ کا حکم
ہندوستان میں سرکاری اداروں کے بیجا استعمال یا ان ادارو ںکے کرمچاریوں کی زیادتیوں کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔ حوالات میں اموات یا پوچھ گچھ کے دوران اذیت ناک واقعات میں اضافہ کے بعد سپریم کورٹ نے حکم دیا ہیکہ ملک کے تمام پولیس اسٹیشنوں اور سی بی آئی، این آئی اے، ای ڈی، این سی بی، ڈی آر آئی، ایس ایف آئی اور دیگر اداروں میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب، رات میں دکھائی دینے والے آلات اور ریکارڈنگ کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ قابل خیرمقدم ہے۔ اس سے حوالات میں اذیت دینے اور تحویل میں اموات کے واقعات کا پتہ چلانے میں آسانی ہوگی لیکن سوال یہ ہیکہ آیا اس طرح کے سی سی ٹی وی کیمروں کا کنٹرول کون کرے گا۔ کئی مقامات ایسے ہیں جہاں پولیس کے خلاف پرندے کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں دی جاتی تو پھر پولیس اسٹیشنوں کے سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ اور کسی کو اذیت دیتے وقت سی سی ٹی وی کیمرے کام کررہے ہیں یا نہیں اس بات کا کون پتہ چلائے گا۔ ہوسکتا ہیکہ خود پولیس ملازمین ان کیمروں کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرکے اپنا کام پورا کرلیں۔ سپریم کورٹ نے ایک ذمہ داری کے ساتھ پولیس اسٹیشنوں میں ہونے والی زیادتیوں، اذیت ناک پوچھ گچھ یا تفتیش کے عمل پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بڑھتے واقعات کو روکنے کیلئے بھی سپریم کورٹ نے ہر ضلع میں انسانی حقوق کی عدالتوں کے قیام کا حکم دیا ہے۔ یہ ضروری ہیکہ پولیس کی من مانی اور زیادتیوں کا پتہ چلا کر خاطیوں کو سزاء دی جائے تاکہ انسانی حقوق کو پامال کرنے والے واقعات کا تدارک ہوسکے۔
