ہم ہیں ہم فاتح طِلسم خرد
ہم کہ گہوارۂ جنوں میں پلے
احتجاج ‘ دستوری اور بنیادی حق
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور اس ملک میں دستور کے مطابق ہر کام ہوتا ہے ۔ دستور ہند میں ملک کے عوام کو دستوری اور قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے احتجاج کرنے کا حق فراہم کیا گیا ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ مرکز کی نریندرمودی حکومت اورا س کی پیروی کرتے ہوئے دوسری ریاستی حکومتیں بھی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کی ہر گنجائش کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کیلئے مختلف ہتھکنڈے اختیار کرتے ہوئے احتجاج اور احتجاج کرنے والوں کو بدنام و رسواء کرنے تک سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ پہلے تو اترکھنڈ میں بی جے پی حکومت نے اور بہار میں بی جے پی ۔ جے ڈی یو کی حکومت نے احتجاج سے عوام کو دور رکھنے کیلئے حکمت عملی جیسے قوانین پر عمل آوری کا اعلان کردیا ہے ۔ یہ اعلان کردیا گیا ہے کہ احتجاج میں حصہ لینے والوں کو سرکاری ملازمتوں سے محروم ہونا بھی پڑسکتا ہے ۔ یہ عوام کو خوفزدہ کرنے اور دھمکانے کی حکمت عملی ہے ۔ اس کے بعد اب ملک کے وزیر اعظم نے بھی ان کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو ’آندولن جیوی ‘ ( احتجاج پر زندہ رہنے والے ) قرار دیا ہے ۔ اس طرح انہوں نے عوامی احتجاج کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کی ہے اور اس کے ذریعہ انہوں نے حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے ۔ یہ در اصل آمرانہ سوچ کا نتیجہ ہے ۔ اسی سوچ کے تحت حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو خاموش کرنا حکومت کا منصوبہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے دستور نے ملک کے ہر شہری کو دستور کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے پرامن احتجاج کرنے کا حق فراہم کیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی حکومت اور ان کے ہمنواء عوام کے اس دستوری حق کو چھیننا چاہتے ہیں اور عوام کو اس حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ اسی مقصد سے احتجاج کرنے والوں کو نت نئے نام دئے جا رہے ہیں۔ انہیں رسواء و بدنام کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے لیکن اس کوشش میں دستور کی خلاف ورزی جو ہو رہی ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی جا رہی ہے حالانکہ دستوری حقوق کا تحفظ کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے ۔
مرکز میں نریندر مودی حکومت کے قیام کے بعد سے ہی عوامی تحریکوں کو کچلنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ہے ۔ حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو قوم مخالف قرار دیتے ہوئے دبانے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے ۔ چاہے یہ آواز جے این یو سے اٹھی ہو یا پھر شاہین باغ سے یہ صدا بلند کی گئی ہو۔ چاہے یہ آواز نوٹ بندی کے خلاف بلند کی گئی ہو یا پھر جی ایس ٹی کے نفاذ کے خلاف بلند ہوئی ہو۔ کسی بھی موقع پر کسی بھی مخالفانہ آواز کو برداشت کرنے کا مادہ نریندرمودی حکومت میں دکھائی نہیں دیا ہے ۔ اس کے بر خلاف کسی نہ کسی طریقے اور ہتھکنڈے سے ان آوازوں کو دبانے اور کچلنے کی کوشش ہی کی گئی ہے ۔ احتجاج کو قوم مخالف قرار دینے کا رجحان پیدا کردیا گیا ہے ۔ حکومت سے سوال کرنے والے جے این یو کے طلبا کو غداری کے مقدمات میں پھانس کر جیل بھیج دیا گیا ہے ۔ اب جبکہ ملک میں کسان احتجاج چل رہا ہے اورکسان برادری تینوں نئے متنازعہ زرعی قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو اس احتجاج کو بھی قوم مخالف قرار دینے کی حتی المقدور کوشش کی گئی ۔ اسے خالصتان سے جوڑا گیا ۔ اسے ماو وادی احتجاج قرار دیا گیا ۔ اسی نکسلی احتجاج قرار دیا ۔ اسے پاکستان کے اشارے پر ہونے والا احتجاج بھی قرار دیا گیا ۔ اتنا سارا کچھ کیا گیا لیکن کسانوں کی تشویش کو دور کرنے اور انہیں اعتماد میں لینے کیلئے نریندر مودی حکومت نے کچھ بھی نہیں کیا ۔ صرف منفی سوچ و فکر کی حکمت عملی اختیار کی گئی جو افسوس کی بات ہے ۔
جہاں تک وزیر اعظم کی جانب سے احتجاج کے تعلق سے ریمارک کا سوال ہے یہ افسوسناک کہا جاسکتا ہے کیونکہ احتجاج بنیادی حق ہے جو دستور نے فراہم کیا ہے ۔اس کے کچھ تقاضے اور ذمہ داریاں ضرور ہیںاور ان کی پابندی ہونی چاہئے لیکن حکومت کے خلاف اٹھنے والی آواز کو کچلنے کا جو رجحان چل پڑا ہے اور اسے قوم مخالف قرار دینے کی جو روایت شروع کی گئی ہے وہ افسوسناک ہے اور اس سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کو مخالفانہ آواز کو سننے اور اسے برداشت کرنے کا مادہ خود میں پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوامی احتجاج کو قبول کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوامی احتجاج کو کچلنے کیلئے منفی سوچ و حکمت عملی کو ترک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جو دستوری اور بنیادی حقوق ہیں ان کا تحفظ ہوسکے ۔
