ہندوستان میں ان دنوں احتجاج کرنے پر بھی بغاوت کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران ایسے درجنوں مقدمات درج کئے گئے جن میں بغاوت کے الزامات عائد کئے گئے جبکہ یہ محض احتجاج اور اختلاف رائے کے مسائل تھے ۔ حکومت کے خلاف رائے ظاہر کرنے اور عوام کو ان کے حقوق کا احساس دلانے پر بغاوت کے مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر اتر آنے پر بغاوت اور غداری کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ انتہائی معمولی وجوہات پر ایسے سنگین الزامات کے تحت مقدمات درج کرتے ہوئے حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے اور کچلنے کی کوششیں ہوئی ہیں۔ مقدمات درج کرتے ہوئے لوگوں کو جیل منتقل کیا گیا ہے اور وہاں ان کی ضمانتیں تک انتہائی مشکل ہوگئی ہیں۔ اب ملک کی عدالتوں کو بھی احساس ہوچکا ہے کہ حکومت کی جانب سے غداری اور بغاوت کے قانون کا بیجا استعمال کیا جا رہا ہے اور اس کی آڑ میں حکومت اپنے مفادات کی تکمیل کر رہی ہے ۔ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ خود ملک کی سپریم کورٹ نے بھی اس پر سوال اٹھایا ہے ۔ عدالت نے ایک مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے اس قانون کو سامراجی دور کا قانون قرار دیا ہے اور کہا کہ اسی قانون کا برطانوی حکومت کی جانب سے جدوجہد آزادی کو کچلنے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ اسی قانون کے ذریعہ برطانیہ نے گاندھی جی اور گوپال کرشن گوکھلے کو خاموش کرنے کی کوشش کی تھی ۔ کیا اب بھی جبکہ ہندوستان کو آزاد ہوئے 75 سال گذر چکے ہیں ایسے قانون کی ضرورت ہے ؟۔ سپریم کورٹ کے یہ سوالات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح سے حکومت قانون کے نام پر دستور میں فراہم کردہ حقوق کو دبانے اور کچلنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ملک کے دستور اور قانون میں عوام کو اختلاف رائے کا اختیار دیا گیا ہے ۔ انہیں دستور اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے احتجاج کرنے اورا پنی ناراضگی جتانے کا حق دیا گیا ہے اور موجودہ حکومت اسی حق کو دبانے اور کچلنے کی کوشش کر رہی ہے ۔
ہریانہ میں سرسہ کے مقام پر کسان احتجاج کے دوران تشدد کے کچھ واقعات پیش آئے ۔ بی جے پی لیڈر و ڈپٹی اسپیکر اسمبلی کی کار کو ہجوم نے نشانہ بنایا اور اسے نقصان پہونچایا ۔ کار کے شیشے وغیرہ ٹوٹ گئے ۔ اچھی بات یہ رہی کہ بی جے پی لیڈر محفوظ رہے اور انہیں کوئی گزند نہیں پہونچی ۔ اس واقعہ پر بھی ہریانہ کی منوہر لال کھٹر حکومت نے 100 کسانوں کے خلاف بغاوت اور غداری کے مقدمات ٹھوک دئے ہیں۔ خود سپریم کورٹ کی رائے یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے اس قانون کا انتہائی بیجا استعمال کیا جا رہا ہے اور مخالفین کی آواز دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ملک کے دانشور طبقہ کا بھی ماننا ہے کہ غداری اور بغاوت کے قانون کے ملک میں اظہار خیال کی آزادی اور جمہوری طریقہ احتجاج پر سنگین سوال پیدا ہو رہے ہیں۔ اس قانون کے ذریعہ بنیادی حقوق کو بھی سلب کیا جا رہا ہے ۔ کسان ملک میں اپنے مطالبات کیلئے احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ کسی بھی مسئلہ پر احتجاج ہو لیکن اس میں تشدد کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ اس کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا تاہم معمولی واقعہ کیلئے بغاوت اور غداری کا مقدمہ درج کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔ یہ ایسے مقدمات ہیں جن پر خود ملک کی سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کیا ہے ۔ ایسے میں حکومت کو اپنے موقف کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اس بات کو ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ کسی کو اس کے دستوری اور جمہوری حق سے محروم کرنے کیلئے قانون کا بیجا استعمال نہیں کیا جانا چاہئے ۔
ملک میں نہ صرف احتجاج کرنے والے عوام ایسے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں بلکہ سماجی مسائل پر اپنی ذمہ داری پوری کرنے والے صحافیوں کو بھی بخشا نہیں جا رہا ہے ۔ شہری حقوق کیلئے آواز اٹھانے والی شخصیتوں کو بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جا رہا ہے ۔ حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے اور کچلنے کیلئے ایک طرح سے طاقت کا استعمال ہو رہا ہے جس کا ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں کوئی جواز نہیں ہونا چاہئے ۔ مرکزی حکومت کو کم از کم اب سپریم کورٹ کے تبصرہ اور تجزیہ کے بعد ایسے مقدمات کے اندراج سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ انگریزی سامراج کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی قانون کو اپنے ہی شہریوں کی آواز دبانے کیلئے استعمال کرنے کا ہرگز کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔
