احساسِ کمتری کا مداوا

   

از : ابوزہیرنظامی
خود اعتمادی بہت بڑی دولت ہے۔ اگر آدمی کے اندر خود اعتمادی نہ ہو تو اس کی ذہنی و جسمانی صلاحیتیں پروان نہیں چڑھتیں۔ اسلام نے مسلسل حصولِ علم پر زور دیا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں ہے کہ ’’اے اللہ! میرے علم میں اضافہ فرما‘‘۔ علم کے ذریعہ آدمی کے اندر حد درجہ خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے اندر ہمیشہ نئے جذبے پروان چڑھتے رہتے ہیں۔ علم کا مطالعہ حسرت و یاس کو ختم کردیتا ہے۔ علم سے احساس کمتری بھی دور ہوتا ہے۔ علم روشنی ہے، جو انسان کو اُجالا دکھاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم یا تو علم سیکھنے میں مصروف ہوتے یا سکھانے میں، ان کا کوئی وقت خالی نہیں گزرتا تھا، اس لئے انھیں پریشانی یا مصیبت کا سامنا ہی نہیں تھا۔ الغرض مسلمان حصول علم اور مطالعہ کے ذریعہ اپنی ذات کے اندر بے شمار خوبیاں پیدا کرلیتا ہے، جس کے سبب احساس کمتری کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ گویا علم اس کی ذات کو مکمل کردیتا ہے۔
حضرت معاذ اور حضرت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہما خود اعتمادی کی دو بہترین مثالیں ہیں، جنھوں نے انتہائی بچپن میں تنہا ابوجہل جیسے فرعونی صفت مرد کو تہہ تیغ کیا۔ واضح رہے کہ دینی تعلیمات انسان کے اندر خود اعتمادی اور خودداری پیدا کرتی ہیں۔
راجر ڈبلیو باب سین کا کہنا ہے کہ میں قنوطیت اور رجائیت پسند تھا۔ میں اس دور کی سیاست، معاشرتی اور معاشی حالت کا منفی پہلو دیکھتا تھا۔ میرے خیال میں سیاسی اور دیگر معاملات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ تباہی نزدیک اور لازمی تھی۔ مجھے ہر گوشے میں تاریکی اور ہر طرف حسرت و یاس کی تصویر نظر آتی تھی۔ ایک دن میں لائبریری گیا اور تاریخی کتابوں کی اَلماری دیکھنے لگا۔ ایک کتاب اُٹھائی اور جو صفحہ کھلا اسے پڑھنے لگا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی، جب میں نے محسوس کیا کہ ماضی میں بھی حالات کم و بیش ایسے ہی تھے۔ یہاں تک کہ دوسرا صفحہ بلکہ دوسرا باب بھی پڑھ ڈالا، مگر یکسانیت برقرار رہی۔
تاریخ کی ایک دوسری کتاب اٹھائی اور دوسرا دور بھی پڑھ ڈالا، مگر وہی حسرت و یاس، وہی ناانصافیوں اور بے رنگینیوں کی داستان۔ اب تک میں نے تاریخ کی متعدد کتابیں پڑھ ڈالیں، مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ نام نہاد سنہرے دَور میں بھی حالات کم و بیش ایسے ہی تھے۔ اس مطالعہ کے بعد میری قنوطیت اور رجائیت ختم ہوچکی ہے۔ میں واقعات کے ساتھ ساتھ چلنے کا ڈھنگ سیکھ رہا ہوں، بلکہ یہ تگ و دو کرتا رہتا ہوں کہ ان حالات میں رہتے ہوئے مسرور اور شادماں زندگی کس طرح بسر کی جاسکتی ہے۔