اخلاقیات سے آزادی :ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

,

   

پندرہ اگست کو جب پورا ملک 75 واں یومِ آزادی’امرت مہتسو’ منا رہا تھا ، بچے بچے کی زبان پر آزادی کے نغمے تھے اور وزیر اعظم لال قلعہ کی تاریخی فصیل سے قوم کو خطاب کرتے ہوئے خواتین کی عزّت اور حقوق کی باتیں کررہے تھے ، اسی موقع پر ریاست گجرات کی بی جے پی حکومت نے اجتماعی زنا بالجبر کے 11 مجرموں کو ، جو جیل میں عمرقید کی سزا کاٹ رہے تھے ، رہا کرنے کا اعلان کردیا _ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے 2002 میں گجرات میں مسلم کش فسادات کے دوران ، جب ایک ہزار سے زائد مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا تھا ، بڑی سفّاکیت کا مظاہرہ کیا تھا _ انھوں نے ایک خاندان کے 7 بے قصور افراد کو بے دردی سے قتل کیا تھا ، بلقیس بانو نامی خاتون پر ، جس کی عمر اس وقت21 برس تھی اور جو 5 ماہ کی حاملہ تھی ، اجتماعی طور سے جنسی تشدّد کیا تھا اور اس کی تین سالہ معصوم بچّی کو اس کی گود سے چھین کر فرش پر پٹخ کر پتھر سے اس کا سر کچل دیا تھا _ ان انسانیت سوز افعال کے مرتکب ملزموں کو جنوری 2008 میں ممبئی کی خصوصی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی ، جسے بعد میں ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا ۔

      ایسے درندہ صفت شیطانوں کو عام رہائی کی پالیسی کے تحت آزاد کرنا یوں بھی انتہائی غیر منصفانہ عمل تھا ، جس کی امید کسی عدلیہ یا منتظمہ سے نہیں کی جاسکتی تھی ، اس لیے کہ یہ سراسر عدل و انصاف کا خون ہے  _ ہمدردی کا اظہار ظالموں ، قاتلوں اور زانیوں سے نہیں ، بلکہ مظلوموں سے کرنا شرافت اور انسانیت کا تقاضا ہے ، لیکن جو چیز خون کے آنسو رُلانے والی ہے وہ ایسا ردّعمل ہے ، جو اس موقع پر سماج کے ایک بڑے طبقے کی طرف سے سامنے آیا ہے _ انھوں نے جس رویّے کا مظاہرہ کیا ہے اس سے انسانیت کا سر شرم سے جھکا گیا ہے  _ جیل سے رہائی کے موقع پر ان مجرموں کا پُرجوش استقبال کیا گیا ، انہیں ٹیکے لگائے گئے  _ پھر انہیں وشو ہندو پریشد کے دفتر لے جایا گیا اور  وہاں ان کی گُل پوشی کی گئی  _ ایک وزیرِ باتدبیر نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ یہ لوگ 'برہمن' یعنی سماج کے اونچے طبقے کے لوگ ہیں اور اچھے سنسکار والے ہیں  _ اس رویّے سے سماج کے سربراوردہ طبقے کی اخلاقی پستی کی انتہا کا اظہار ہوتا ہے  _ جو سماج اخلاقی اعتبار سے اس حد تک کِرم خودرہ اور کھوکھلا ہوجائے اسے تباہ و برباد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا _ اس کا بہت جلد موت کے گھاٹ اتر جانا یقینی ہے _ شُکر ہے کہ اس مجرمانہ عمل کے خلاف سماج کے بعض طبقات اور نمایاں افراد کی طرف آوازیں اٹھی ہیں اور سپریم کورٹ سے رہائی کے حکومتی فیصلے کو کالعدم کرنے کے مطالبے کیے گئے ہیں _ ان آوازوں کو طاقت بخشنے کی ضرورت ہے  _

    اس صورت حال سے ذہن اسلام کے تصورِ عدل کی طرف منتقل ہوجاتا ہے  _ قرآن مجید کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ کوئی دوست ہو یا دشمن اس کے ساتھ عدل کا معاملہ کیا جائے گا _ (المائدۃ : 8) اس نے بتایا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو قتل کردے تو بدلے میں اسے بھی قتل کردیا جائے گا _” قصاص میں زندگی ہے ، اے عقل و خرد رکھنے والو! “ (البقرة : 179) بلکہ اسلامی شریعت تو یہاں تک کہتی ہے کہ اگر ایک فرد کو قتل کرنے والے بہت سے لوگ ہوں تو ان سب کو قتل کردیا جائے گا کہ یہی انصاف کا تقاضا ہے _ اور قاتل چاہے جتنی اعلیٰ سماجی حیثیت کا مالک ہو اس کے ساتھ کوئی روٗ رعایت نہیں کی جائے گی  _ قبیلۂ مخزوم عرب کا ایک بہت معزّز قبیلہ تھا  _ عہدِ نبوی میں اس کی ایک عورت نے چوری کی تو اس کا ہاتھ کاٹ دیے جانے کا فیصلہ ہوا  _ لوگوں کی خواہش ہوئی کہ یہ سزا دینے سے قبیلہ کی بہت زیادہ بدنامی ہوجائے گی جائے گی ، اس لیے اس کے بجائے کوئی اور سزا دے دی جائے ، لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے اسی سزا کو نافذ کیا اور آپ نے اس موقع پر ایسی بات فرمائی جو آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہے  _ آپ نے فرمایا : " اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیا جاتا  _ ( بخاری : 4304 ، مسلم : 1688)

   اس حکومتی رویّے سے میرا یہ عقیدہ اور بھی مضبوط ہوگیا ہے کہ یہ دنیا ایک دن فنا ہوگی اور دوسری دنیا برپا کی جائے گی ، جب تمام انسان اللہ تعالیٰ کے روٗ بروٗ پیش کیے جائیں گے اور  دنیا کے اعمال کے مطابق انہیں جزا یا سزا دی جائے گی _ اِس دنیا میں بہت سے انسان ایسے ہیں جن پر ظلم کیا جاتا ہے ، انہیں ستایا جاتا ہے ، تکلیفیں پہنچائی جاتی ہیں ، قتل کیا جاتا ہے ، عصمت لوٹی جاتی ہے ، گھر جلائے جاتے ہیں ، لیکن انہیں انصاف نہیں مل پاتا اور وہ موت کی آغوش میں جا پہنچتے ہیں _ ضروری ہے کہ دوسری دنیا برپا ہو جہاں ان کی سنوائی ہو اور انہیں انصاف ملے  _ اسی طرح اس دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو  بے قصوروں کو ستاتے ہیں ، قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے ہیں ، لوٹ مار مچاتے ہیں اور عصمتوں کو پامال کرتے ہیں ، اس کے باوجود وہ اپنے اثر و رسوخ اور جاہ و اقتدار کی بنا پر قانون کی گرفت میں نہیں آتے اور انہیں سزا نہیں ملتی  _ ضروری ہے کہ دوسری دنیا برپا ہو ، جہاں قہّار و عزیز اور مالک یوم الدین  خدا ان سے حساب لے اور وہ اپنے کیے کی سزا پائیں ۔