’’اخلاق سے تبریز تک … کیا وکاس اسی کا نام ہے‘‘

   

محمد نصیرالدین
تشدد ، قتل و غارت گری اور دنگا و فساد کو کوئی بھی مہذب معاشرہ پسند نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی امن پسند شہری اس کو قبول یا برداشت کرسکتا ہے لیکن بھلا ہو اس ہندوستان کا جس کی باگ ڈور اُن عناصر کے ہاتھوں میں ہے جن کے پاس روداری ، بے معنی ہے ۔ سیکولرازم سے جن کو نفرت ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ جن کو سخت ناپسند ہے جس کی وجہ آج مہذب ہندوستان لوگوں میں ہجومی تشدد کی بناء موضوع مذاق بن گیا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ’’ہندو توا‘‘ کے نام پر وجود میں آئی ۔ بیشتر تنظیمیں دیگر مذہبی نظریات و خیالات رکھنے والے فرقوں کو ایک بوجھ سمجھتی ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ہندوستان کو ایک ہندو مملکت بننا چاہئے اور یہاں آباد ہر شخص کو ہندو بن کر رہنا چاہئے ۔ مسلمانوں کے تئیں ان کا یہ خیال ہے کہ پاکستان مسلمانوں کے لئے بنا یا گیا اور تمام مسلمانوں کو پاکستان چلے جانا چاہئے ، انہیں ہندوستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ ظاہر ہے کہ نفرت و تعصب پر مبنی ان خیالات کے ساتھ جب تنظیمیں وجود میں آتی ہیں اور ان کی ساری تگ ودو اور دوڑ دھوپ کا واحد نکتہ بھی جب کسی مذہبی گروہ کی مخالفت بن جاتا ہے تو پھر معاشرہ اور سماج میں بھائی چارہ اور فرقہ وارانہ یکجہتی کا دیرپا رہنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ ہندو توان کی تنظیموں نے جہاں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زہر افشانی اور نفرت کے پرچار کو اپنا مقصد بنایا وہیں انہوں نے نئی نسل کے ذہن و دماغ کو بھی مسموم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ چنانچہ تعلیم گاہوں یونیورسٹیز اور کالجس میں بھی فرقہ وارانہ بنیادوں پر طلباء کو منقسم کردیا ۔ نفرت و تعصب کے فروغ میں رہی سہی کسر میڈیا نے پوری کردی۔ الیکٹرانک اور سوشیل میڈیا نے نفرت و تعصب کی مہم کے فروع میں کلیدی رول ادا کیا۔ عوام کو ہندو اور مسلمان کی اصطلاح میں سوچنے پر مجبور کردیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گزشتہ پانچ سال جس پارٹی کو حکومت چلانے بیساکھیوں کی ضرورت تھی ، وہ آج بھرپور اکثریت کے ساتھ اقتدار پر براجمان ہے ۔ ظاہر ہے حکمراں جماعت ہرگز نہیں چاہے گی کہ ان کی حکومت کسی متعینہ مدت کے لئے اقتدار میں رہے اور ملک کو زعفرانی رنگ میں بدلنے کا ان کا حسین سپنا ادھورا رہ جائے ۔ ملک کو زعفرانی رنگ میں تبدیل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ دستور میں تبدیلی لائی جائے، یکساں سیول کوڈ نافذ کیا جائے اور مذہبی آزادی کو ختم کردیا جائے ۔ یہ مقاصد اسی وقت پورے ہوسکتے ہیں جب فرقہ و مذہبی بنیادوں پر ملک کی عوام کو تقسیم کردیا جائے تاکہ انتخابات کے موقع پر ہندوتوا کے نام پر ووٹ لینے میں آسانی ہوسکے ۔ حالیہ انتخابات اس بات پر شاہد ہیں کہ تمام محاذوں پر ناکام حکومت واضح اکثریت سے دوبارہ برسر اقتدار آتی ہے۔ وندے ماترم اور جئے شری رام کے نعروں کا مطالبہ محض چند سر پھرے لوگوں کی کارستانی ہرگز نہیں ہے بلکہ ایک طویل مدتی منصوبہ کا حصہ ہے کہ ان نعروں کی آڑ میں مسلسل مسلمانوں کو خوفزدہ کیا جائے ، ڈر و خوف میں مبتلا کیا جا ئے اور جب جیسے ممکن ہو ہجومی تشدد سے اتنا تنگ کیا جائے کہ بالآخر مسلمان اپنے دین و ایمان اور شناخت کو چھوڑ نے پر آمادہ ہوجائیں اور اس طرح ہندوتوا کے مقاصد کی تکمیل ہوجائے ۔ ’’لو جہاد‘‘ کا نعرہ اور نعرے کے پس منظر میں مسلمان لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ گھروں سے فرار ہونا امت مسلمہ کے لئے اہم لمحہ فکر ہے۔

اخلاق سے ہجومی تشدد کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے، بعد ازاں سینکڑوں افراد نشانہ بنتے ہیں لیکن ملک کے وزیراعظم چپ سادھ لیتے ہیں۔ ہجومی تشدد اور عدم رواداری کو لے کر جب امریکی حکومت اعتراض جتاتی ہے اور ہندوستانی حکومت کو آڑے ہاتھوں میں لیتی ہے تو ملک کے وزیراعظم رسماً ہی صحیح زبان کو جنبش دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں لیکن ان کے ماضی کے عظیم کارناموں کی بنیاد پر کہنا مشکل ہے کہ وہ اپنی زباں پر قائم رہیں گے اور ہجومی تشدد کو روک پائیں گے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ملت جس کو ’’جسد واحد‘‘ سے تعبیر کیا گیا جس امت کو ایک عمارت سے تشبیہ دی گئی ، اس کا ہجومی تشدد کے واقعات پر کیا رد عمل ہے ۔ پارلیمنٹ میں مختلف مطالبات کو لے کر ارکان سیاہ بیاچس لگاتے ہیں ، پلے کارڈ لہراتے ہیں، خصوصی مباحث کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسپیکر کے پوڈیم کے قریب چلے جاتے ہیں، پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دیتے ہیں اور اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہیں تاکہ اپنے مطالبات کے حل کیلئے حکومت پر دباؤ ڈالا جاسکے اور حکومت کے رویہ پر اظہار ناراضگی جتایا جاسکے ۔ بڑے ہی حیرت و تعجب کی بات ہے کہ مسلمانوں کے 32 منتخب نمائندے ایوان میں موجود ہیں لیکن ہجومی تشدد کے سلسلہ میں اپنی ناراضگی ظاہر کرنے اور اس طرح کے واقعات کی روک تھام کیلئے مؤثر اقدامات کے مطالبہ کو لے کر کسی بھی قسم کا احتجاج نہیں کیا ۔ ایسا لگتا ہے کہ ملت کے یہ نمائندے شعلہ نوائی کی مسابقت اور حصول پبلسٹی کی دوڑ میں لگے ہیں، انہیں اس بات کی فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ ملت کے اہم اور سلگتے مسائل کے سلسلہ میں گفت و شنید کریں اور ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں اور حکومت کو مجبور کریں کہ وہ ان مطالبات کو قبول بھی کرے! تبریز کی موت کے بعد حسب روایت چند تنظیموں اور این جی اوز نے علامتی غم و غصہ کا اظہار کیا ، پھر آئی گئی ہوگئی۔ آخر ملت کے ان رہنماؤں کو کون سمجھائے کہ اخلاق سے لے کر تبریز تک ہجومی تشدد سے ہوئی اموات محض وقتی حادثہ ہرگز نہیں ہیں، ان واقعات نے ان کے خاندانوں اور ان کے علاقے کے عوام کے اندر دہشت و خوف کو پروان چڑھایا ہے ۔ یہ بات بڑی غور طلب ہے کہ کہیں اس طرح کے واقعات سے متاثر ہوکر کمزور اہل ایمان کہیں ہندوتوا کے جال میں نہ پھنسنے پائیں ۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ پارلیمنٹ میں تمام مسلمان نمائندے متحدہ انداز میں علامتی احتجاج کرتے اور وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو اقدامات پر مجبور کرتے۔ تمام بڑی تنظیموں کے ذمہ دار تبریز کے جنازے میں شریک ہوتے علاقہ میں قیام کرتے اور گھر والوں اور علاقہ کے عوام کی ڈھارس بندھاتے اور تبریز کے اہل خانہ اور بچوں کی ذمہ داری اٹھانے کا اعلان کرتے۔ ان واقعات کو وقتی تشدد سمجھ کر نظر انداز کردینا یا اظہار مذمت کر کے خاموش ہوجانا انتہائی نادانی ہے ۔ اگر اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے سلسلہ میں موثر اقدامات نہیں کئے گئے تو یہ سلسلہ نہ صرف دراز ہوسکتا ہے بلکہ کسی کو بھی کبھی کہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے ۔ ان واقعات کے خلاف بڑے پیمانہ پر عوامی بیداری لانے کی ضرورت ہے تاکہ حکمراں جماعت مجبور ہوجائے کہ وہ ان واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات کرے۔ اس سلسلہ میں مختلف سطحوں پر مختلف کوششوں کی ضرورت ہے۔ عوامی نمائندوں کا فرض ہے کہ وہ صدر جمہو ریہ سے مشترکہ طور پر مؤثر نمائندگی کریں اور اس بات کا مطالبہ کریں کہ وہ اس جاری تشدد کو روکنے میں اپنا رول ادا کریں۔ اسی طرح ریاستی گورنرس کو بھی میمورنڈم دیا جانا چاہئے تاکہ اس طرح کے واقعات دوبارہ کہیں بھی وقوع پذیر نہ ہونے پائیں۔ ملی اور مذہبی تنظیموں اور اداروں کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ وہ وزیراعظم اور وزیر داخلہ سے اس سلسلہ میں بھرپور نمائندگی کریںاور انہیں منصبی فریضہ یاد دلائیں۔

ہجومی تشدد کا یہ سلسلہ لگتا ہے کہ فوری رکنے والا نہیں ہے ۔ علماء قائدین اور ملی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر سطح پر ملت میں یہ شعور بیدار کریں کہ مسلمان کیلئے زندہ رہنے کے صرف دو ہی طریقے ہیں، ایک مجاہد اور دوسرے شہید۔ اگر وہ اس انداز سے جینے کا تہیہ کرلیتا ہے تو کوئی آنکھ بھی اس کی طرف نہیں اٹھے گی ۔ دوسری چیز جس کی طرف فی الفور توجہ کی ضرورت ہے ، وہ یہ ہے کہ ملت کے جتنے مدارس اور تعلیمی ادارے چلائے جار ہے ہیں، وہاں حفاظت خود اختیاری کی ضروری تربیت دینے کی سخت ضرورت ہے اور فزیکل ٹریننگ اور کرانے کی ٹریننگ کے نام پر یہ کام آسانی سے کیا جاسکتا ہے ۔ تیسری چیز جس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے وہ یہ کہ مسلمان جہاں بھی آباد ہیں اپنے قرب و جوار کی غیر مسلم آبادی سے اپنے روابط و تعلق کو استوار کریں اور اسلام و مسلمانوں کے تئیں ان کی غلط فہمیاں اور غلط معلومات کو دور کریں۔ اسی طریقہ سے جہاں بھی مساجد قائم ہیں، جہاں مدارس قائم ہیں اور جہاں بھی مسلمانوں کے مختلف ادارے قائم ہیں ، ان کے قرب و جوار میں رہنے والے اہل وطن بھائیوں کو مدارس ، مساجد کے مشاہدے کی دعوت دیں اور انہیں اسلام اور مسلمانوں کی صحیح اور حقیقی تصویر دکھائیں۔ علاوہ ازیں وقت کا یہ بھی اہم تقاضہ ہے کہ ہندوتوا کی تنظیموں اور نفرت و تشدد کے علمبرداروں سے روبرو ملاقاتوں کا خصوصی اہتمام ہو، انہیں اسلام و مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے آگاہ کیا جائے اور نفرت و عداوت کی بنیادوں کو ٹٹولا جائے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے ۔ اگر یہ سلسلہ شروع کیا جائے تو سخت دل بھی نرم پڑسکتے ہیں اور نفرت کو محبت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ ملت اسلامیہ کا یہ ایک عظیم سانحہ ہے کہ جس دین نے اپنے ماننے والوں کو افتراق و انتشار سے بچنے کی بار بار تلقین کی لیکن آج وہ ملت افتراق و انتشار میں ڈوب چکی ہے ، کہیں مختلف مفادات ، کہیں انانیت ، کہیں قیادت کی دعویداری کہیں ہمچومن دیگر نیست اتحاد کی راہ میں رکاوٹ ہیں جس کی وجہ سے ملت میں اتحاد و اتفاق نظر نہیں آتا اور مخالفین اس صورتحال کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں اور مختلف انداز سے ملت کو زیر کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ابھی وقت ہے کہ ملت کے رہنما قائدین ، علماء اور دانشور حالات کی نبض پر نظر رکھیں، فروعی اور فقہی اختلافات کو انتشار و افتراق کا سبب نہ بننے دیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ملت کے تمام مسالک اور گروہوں کے ذمہ دار مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیں اور ملت کے وجود اور اسلام کے مستقبل کی حفاظت کیلئے راہیں متعین کریں۔ یہ پیغام اہل اقتدار کو بہر صورت ملنا چاہئے کہ بدامنی اور تشدد جیسے بھی ہو اور اس کا شکار کوئی بھی ہو ملک کے مفاد میں ہرگز نہیں ہے ، مسلمانوں کا نقصان دراصل اس ملک کا نقصان ہے ۔ اب سلسلہ کو لازماً بند ہونا چاہئے ۔ ملت کے رہنما قائدین اور علماء ان گزارشات کو آگے بڑھاتے ہیں اور ایک مشترکہ ایجنڈہ کو متعین کر کے عملی اقدامات کرتے ہیں تو انشاء اللہ اسلام اور مسلمانوں کا مستقبل اس ملک میں یقیناً تابناک ہوسکتا ہے ۔
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک