بلاشبہ عشق و محبت کے جذبات قابل قدر ہیں ، قابل افتخار ہیں وہ لمحات جو عشق و شیفتگی اور ذکر جمیل میں بسر ہوں، صد آفریں ہیں وہ زبانیں جو ذکر محبوب میں زمزمہ سنج رہتی ہیں اور لائق تحسین ہیں وہ سینے جن میں عشق و محبت کی آگ دہکتی رہتی ہے ، لیکن جب عشق کسی دل میں گھر کر جاتا ہے تو وہ عاشق کے دل کو محبوب خدا کی عظمت و محبت اور ادب و احترام سے معمور کردیتا ہے اور بارگاہ محبوب کے نت نئے آداب سکھادیتا ہے ؎
خموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیھم اجمعین کو نبی آخرالزماں ، محبوبِ کردگار ، وجہہ تخلیق کائنات کی عظیم ہستی کا عرفان حاصل تھا ، اس لئے وہ نہایت مؤدب اور دل و جان سے آپ ﷺ پر فدا تھے ۔ بارگاہِ رسالت کی ہیبت و جلال کا یہ عالم تھا کہ صحابہ کرام آپ ﷺ کی محفل بابرکت میں جلوہ گر ہوتے تو وہ ایسے مؤدب ہوتے کہ اپنے جسم کو تک حرکت نہ دیتے تویاکہ وہ انسانی شکل میں جامد مجسمے ہیں اور ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ آپ کی محفل مبارک میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے سوا کوئی اپنی نگاہ اُٹھاکر دیکھنے کی تاب نہ رکھتے ۔ امیرالمؤمنین حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے دریافت کیا گیا آپ حضرات کس طرح حضور پاک ﷺسے محبت کیا کرتے تھے تو آپ نے فرمایا :’’ آپ ﷺ ہمارے نزدیک ہمارے مال اور اولاد نیز مانباپ سے زیادہ محبوب تھے ۔ آپ ﷺ شدت پیاس کی حالت میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ محبوب تھے ‘‘۔ حضرت علی مرتضی کرم اﷲ وجہہ کا یہ فرمان درحقیقت نبی اکرم ﷺ کے اُن ارشاد گرامی کی تشریح ہے جن میں آپ ﷺ نے فرمایا : ’’تم میں سے کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اُس کے نزدیک اُس کے والد (مانباپ ) اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ‘‘(البخاری) نیز آپ کا فرمان عالیشان ہے : ’’تین چیزیں جن میں ہوں گی وہ ان کے ذریعہ ایمان کی حلاوت و چاشنی کو پالیگا ۔(۱) اﷲ اور اس کے رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوں (۲) اور وہ کسی سے محبت رکھے تو صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے محبت رکھے (۳) بعد اس کے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کو کفر سے بچایا ہے وہ کفر کی طرف لوٹنے کو ایسا ہی ناپسند کرے جس طرح وہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہے ۔‘‘ (بخاری ، مسلم ، کتاب الایمان باب حلاوۃ الایمان )
صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی سوانح حیات کا ایک ایک صفحہ ایک ایک سطر ایک ایک حرف ایک ایک نقطہ عشق مصطفی ﷺ سے لبریز و معمور ہے ۔ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ابوطلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جنگ اُحد کے دن تیر پھینک رہے تھے اور نبی اکرم ﷺ ان کے پیچھے سے تیر مرحمت فرمارہے تھے ۔ جب کبھی ابوطلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تیر اندازی کرتے نبی اکرم ﷺ اپنی نگاہ مبارک دراز فرماکر ملاحظہ فرماتے کہ تیر کہاں گری ہے اور حضرت ابوطلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے سینے کو دراز کردیتے اور عرض کرتے : ’’اس طرح میرے مانباپ آپ پر قربان ہیں آپ کو کوئی تیر نہیں لگے گا ۔ میرا سینہ آپ کے سینے کے سامنے ہے اور ابوطلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپ کے لئے اپنی ذات کا حصار و فصل بنائے ہوئے تھے اور کہہ رہے کہ میں بہت سخت ہوں یا رسول اﷲ ! ﷺ آپ اپنی (ظاہری ) ضروریات میں مجھے حکم دیجئے اور جو آپ چاہتے ہیں اس کا حکم دیجئے‘‘ ۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ ایک رات وہ نماز پڑھ رہے تھے اس اثناء میں حضرت نبی اکرم ﷺ ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا مجھ پر گزر ہوا ، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’سل تعطہ‘‘ مانگو جو دعاء کروگے قبول ہوگی ۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا اور دریافت کیا کہ اس وقت آپ نے کیا دعاء کی تھی ۔ انھوں نے کہا بلاشبہ میری ایک ایسی دعاء ہے جس کو میں کبھی ترک نہیں کرتا وہ یہ ہے : ’’اے اﷲ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں جو کبھی ختم نہیں ہوتی ، اور ایسی آنکھ کی ٹھنڈک جو کبھی منقطع نہ ہو اور سب سے اعلیٰ جنت ،جنت الخلد میں نبی اکرم ﷺ کی رفاقت و معیت کا سوال کرتا ہوں ‘‘۔ (ابونعیم)
صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ اجمعین وہ ذوات قدسیہ ہیں جن کو نبی اکرم ﷺ کی رفاقت و محبت نصیب ہوئی۔ اور وہ صحبت ان کے لئے جنت سے زیادہ عزیز تھی ، اس لئے صحابہ کرام علیہم الرضوان جنت میں آپﷺ کی رفاقت اور معیت کے لئے دعائیں کرتے تھے ۔ جن کی یہ کیفیت ہو کہ وہ جنت میں اعلیٰ نعمت میں بھی نبی اکرم ﷺ کے دیدار جمال رُخ زیبا آپ کی ہمکلامی اور رفاقت کے بغیر جی نہیں سکتے ان بزرگوں پر نہ جانے وصال مبارک کا صدمہ کس طرح کٹھن رہا ہوگا ۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اﷲ ﷺ ان کو یمن کی طرف روانہ کیا تو ان کو وصیت کرتے ہوئے آپ نکلے اور آپ ان کی سواری کے سایہ میں چل رہے تھے جب اپنی وصیت سے آپ ﷺفارغ ہوئے تو ارشاد فرمایا : ’’اے معاذ ! شاید کہ تم مجھ سے اس سال کے بعد ملاقات نہ کرسکو اور شاید کہ تم میری اس مسجد اور میری قبر پر آؤ گے ‘‘۔ یہ سننا ہی تھا حضرت معاذ بن جبل ؓ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔ پھر آپ ﷺ مدینہ منورہ کی طرف رُخ کرتے ہوئے متوجہہ ہوئے اور ارشاد فرمایا : ’’میرے سب سے زیادہ حقدار متقی لوگ ہوں گے جو کوئی وہ ہوں اور جہاں کہیں وہ ہوں ‘‘ ۔ نبی اکرم ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کے ذریعہ سے تاقیامت اپنے عشاق کو یہ مبارک پیغام دیا کہ وہ کوئی بھی ہو کسی رنگ و نسل سے ہوں ، کسی بھی سرزمین سے تعلق رکھتے ہوں اگر وہ تقویٰ اختیار کریں گے اور پرہیزگاری کی زندگی بسر کریں گے تو وہ قیامت میں سرکاردوعالم ﷺ کی رفاقت سے سرفراز ہونگے ۔
نبی اکرم ﷺ کے وصال مبارک کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا چلو ہم حضرت ام ایمن رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے ملاقات کرتے ہیں جس طرح نبی اکرم ﷺ ان کی ملاقات کے لئے جایا کرتے تھے ۔ جب آپ دونوں ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں ، تو آپ دونوں نے تسلی دیتے ہوئے کہا : ’’کیا آپ کو نہیں معلوم کہ جو اﷲ تعالیٰ کے پاس ہے وہ نبی اکرم ﷺ کے لئے بہتر ہے‘‘ تو انھوں نے کہا بلاشبہ میں یہ جانتی ہوں لیکن بات یہ ہے کہ آسمان سے وحی الٰہی کاسلسلہ منقطع ہوگیا ۔ حضرت اُم ایمن کی گفتگو نے آپ دونوں کو برانگیختہ کردیا آپ دونوں حضور پاک ﷺ کو اور نزول حی کویاد کرکے رونے لگے اور جب کبھی حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نبی اکرم ﷺ کا ذکر کرتے تو ان کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ۔ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ فرماتے کوئی رات ایسی نہیں گزرتی مگر میں اپنی حبیب کا دیدار کرتا ہوں، پھر آپؓ خوب روتے ۔ (ان واقعات کا ذکر کتاب ’’سیدنا محمد رسول اﷲ ﷺ ، شمائلۃ الحمیدۃ ، خصالہ الطیبۃ ‘‘ میں ہے )