ارتداد ِزوجہ و حضانت

   

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے ایک عیسائی عورت کے اسلام قبول کرکے ہندہ سے موسوم ہونے کے بعد بتاریخ ۲۵؍سپٹمبر۱۹۷۳ء بمقام حیدرآباد دکن عقد کیا۔ اس کے بعد ہر دو امریکہ چلے گئے۔ بتاریخ ۳۰؍جون ۱۹۷۴ء مسماۃ مذکورہ کے بطن سے ایک لڑکی تولد ہوئی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد نومسلمہ مرتدہ ہوگئی اور سابقہ دین عیسائیت اختیار کرلی ہے۔ ایسی صورت میں شرعاً عقد برقرار ہے یا کیا ؟
۲۔ لڑکی کی حضانت کا حق شرعاً مرتدہ کو ہے یا کیا ؟
جواب : بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہا میں ہندہ کے مرتدہ ہوتے ہی اس کا نکاح زید سے ٹوٹ گیا۔ وہ شوہر سے مہر پائے گی البتہ نفقئہ عدت کی وہ مستحق نہیں۔ عالمگیری جلد اول ص ۳۳۹ میں ہے ارتد أحد الزوجین عن الاسلام وقعت الفرقۃ بغیر طلاق فی الحال قبل الدخول و بعدہ … وان کانت ھی المرتدۃ فلھا کل المہر اِن دخل بھا۔ اور کتاب النفقات ص ۵۵۷ میں ہے وان ارتدت أو طاوعت ابن زوجھا أو أباہ أو لمستہ بشہوۃ فلا نفقۃ لھا۔
۲۔ ہندہ مرتدہ ہونے کی وجہ اس کو لڑکی کی پرورش کا حق نہیں ہے۔ عالمگیری باب الحضانۃ ص ۵۴۱ میں ہے أحق الناس بحضانۃ الصغیر حال قیام النکاح أو بعد الفرقۃ الأم الا أن تکون مرتدۃ أو فاجرۃ غیر مأمونۃ کذا فی الکافی۔
نفقئہ زوجہ
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بکر کا عقد ہندہ سے ہو کر بارہ سال کا عرصہ ہوتا ہے تقریباً ۶سال سے بکر اپنی بیوی کا نان نفقہ ادا نہیں کر رہا ہے نیز حقوق زوجیت سے بھی غافل ہے۔
ایسی صورت میں خورشید بیگم کو کیا راستہ اختیار کرنا چاہئے ؟
جواب : صورت مسئول عنہا میں ہندہ کو چاہئے کہ وہ عدالت میں نفقہ کا دعوی کرے۔ حاکم عدالت بکر سے زوجہ کو جبراً نفقہ دلوائیگا درمختار کے باب النفقۃ میں ہے (وللزوج الانفاق علیھا بنفسہ اِلا أن یظہر للقاضی عدم انفاقہ فیفرض) أی یقدر (لھا) بطلبھا مع حضرتہ ویأمرہ لیعطیھا ان شکت مطلہ
بعد ختم ِعدت ِطلاق، حق ِوراثت نہیں
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے ہندہ کو چودہ سال قبل روبرو حضار محفل و ممبران مسجد کمیٹی طلاق دے کر مہر و ایام عدت کا نفقہ دیدیا۔ طلاق نامہ پر ممبران کمیٹی نے اپنی مہر ثبت کردی نیز اس پر مطلقہ کے دستخط بھی ہیں۔
اب مطلقہ اپنے شوہر کی جائیداد سے حصہ پانے کی مستحق ہے یا نہیں ؟
جواب : صورت مسئول عنہا میں زید نے اپنی زوجہ ہندہ کو طلاق دے کر مہر و نفقئہ عدت دیدیا تھا جس کو چودہ سال کا عرصہ گزرگیا تو اب ہندہ زید کی جائیداد سے کوئی حصہ پانے کی مستحق نہیں کیونکہ عدت طلاق (تین حیض) ختم ہوتے ہی طالق و مطلقہ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے۔ عالمگیری جلد اول ص ۴۶۲ میں ہے ولو طلقھا طلاقاً بائناً أو ثلاثاً ثم مات وھی فی العدۃ فکذلک عندنا ترث ولو انقضت عدتھا ثم مات لم ترث۔