اردو کی زبوں حالی کی وجہ مخلص اور صلاحیت مند لوگوں کو نظرانداز کیا جانا ہے:پروفیسر مظفر حنفی

,

   

اردو کے قومی اداروں پر غاصبوں کا قبضہ ہے، وہ جسے چاہیں انعامات و اعزازات سے نواز دیتے ہیں، اور باصلاحیت لوگوں کو ان اداروں نے مسلسل نظر انداز کیا ہے، ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر مظفر حنفی نے کیا جو بزم صدف انٹرنیشنل کی جانب سے بین الاقوامی ادبی ایوارڈ کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔

انہوں نے ایوارڈ ملنے پر بزم صدف کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ایوارڈ ملنے کی صورت حال اس قدر خراب ہوگئی ہے کہ حقدار کو ایوارڈ نہیں مل پاتا اور لابنگ کرنے والے اور کم اہل لوگ ایوارڈ اڑا لے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت حال کی وجہ سے ایوارڈ کی قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

پروفیسر مظفرکا دعویٰ ہےکہ اس دور میں جبکہ لوگ چھوٹے چھوٹے انعام کے لیے جوڑ توڑ کرتے ہیں اور کام کرنے والے لوگوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اس جوڑ توڑ کے زمانے میں بھی کچھ لوگ ابھی ایمانداری سے فیصلے کرتے ہیں جس کے لیے بزم صدف کا شکریہ۔ واضح رہے کہ بزم صدف انٹرنیشنل نے پروفیسر مظفر حنفی کو بین الاقوامی ادبی ایوارڈ اور ڈاکٹر ثروت زہرہ کو نئی نسل کا انعام دینے کا فیصلہ کیا ہے جو 23-24 جنوری 2020 کو قطر میں منعقد ہونے والے عالمی سیمنار میں دیا جائے گا۔

آپ کو معلوم ہو کہ ایک اپریل 1936کو مدھیہ پردیش کے کھنڈوہ میں پیدا ہونے والے 83 سالہ پروفیسر مظفر حنفی ادب کی مختلف شعبوں میں یکساں صلاحیت رکھتے ہیں۔ تنقید، تحقیق، شاعری کے ساتھ انہوں نے مخلف ادبی صنف میں کارنامے انجام دیے ہیں۔ شاد عارفی سے انہوں نے شاعری کے رموز سیکھے اور پروفیسر عبدالقوی دسنوی کی نگرانی میں تحقیق کا کام انجام دیا۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر اور کلکتہ یونیورسٹی کے اقبال چیئر کے ہیڈ رہ چکے ہیں۔ وہ درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان پر پانچ پی ایچ ڈی ہوچکی ہے اور سیکڑوں مضامین لکھے جاچکے ہیں۔

انہوں نے اپنے بیان اتر پردیش اردو اکیڈمی کے اراکین کے ایوارڈ بانٹنے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، ان کا کہنا ہے کہ ” پہلے پانچ ہزار روپے کے ایوارڈ سے ادبی وقار میں اضافہ ہوتا تھا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اب ایوارڈ فروخت کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ دنوں یوپی اردو اکیڈمی ایوارڈ کی بندر بانٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کس قدر حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ اکیڈمی کے ذمہ داروں نے خود ہی ایوارڈ بانٹ لئے۔ مزید کہا کہ ساتیہ اکیڈمی اور اردو اکیڈمی سب کا یکساں حال ہے۔