کے ٹی آر نے افتتاح کیا ۔ صدر نشین اردو اکیڈیمی بھی موجود تھے ۔ کسی نے توجہ نہیں کی
محمد مبشرالدین خرم
حیدرآباد۔7۔مارچ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے فرزند و ریاستی وزیر کے ٹی راما راؤ کے حلقہ اسمبلی میں ہی جب اردو زبان کے ساتھ انصاف نہ ہو اور اردو اکیڈیمی کے پروگرام میں ہی اردو کو نظر انداز کیا جائے تو تلنگانہ میں اردو کی ترقی اور اس سے انصاف کی امیدیں رکھنا کس حد تک درست ہوگا! حکومت کی جانب سے ایوان اسمبلی ہو یا اسمبلی کے باہر بار بار اردو زبان کی ترقی اور اسے ریاست میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیئے جانے کے علاوہ اردو آفیسرس کے تقررات کے دعوے کرکے حکومت میں شامل افراد خود کو اردو زبان کے چمپئن قرار دینے کی کوشش کر تے ہیں لیکن عملی طور پر ریاست میں اردو کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو اردو اکیڈیمی کی کارکردگی ایسے صدرنشین کے حوالہ کی گئی ہے جن کے پاس اردو اکیڈیمی کے دفتر میں دستیاب رہنے وقت نہیں ہے ۔ اردو اکیڈیمی کی کارکردگی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست میں حکومت کی سرپرستی میں اردو کے مستقبل کو تاریک کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔6مارچ 2023 کو سرسلہ میں کے ٹی رامار اؤ نے اردو گھر کم شادی خانہ کا افتتاح انجام دیا اور اس پروگرام میں وزیر کے ہمراہ صدرنشین تلنگانہ اردو اکیڈیمی جناب خواجہ مجیب الدین کے علاوہ دیگر موجود تھے ۔’ اردو گھر و شادی خانہ بھون‘ کے افتتاح کی تقریب میں کوئی چیز اگر نہیں تھی تو وہ ’اردو‘ ریاستی اردو اکیڈیمی کیلئے مختص بجٹ کے ذریعہ تعمیر اردو گھر کی افتتاحی تقریب اردو زبان کا قطعی استعمال نہیں کیا گیا بلکہ تقریب میں موجود تمام بیانرس‘ افتتاحی تختی وغیرہ محض تلگو میں تھے۔ اردو اکیڈیمی اگر اردو کے فروغ اور اردو کے بجٹ کے استعمال میں بھی اردو کا استعمال نہ کرے اور ایسے پروگرام میں خود صدرنشین اکیڈیمی شرکت کریں جس میں اردو تحریر موجود نہیں ہے بلکہ اردو لفظ بھی تلگو میں لکھا گیا ہو تو ایسی حکومت اور اکیڈیمی سے اردو سے انصاف کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے!اردو اکیڈیمی عہدیداروں سے وضاحت طلب کرنے پر وہ اپنا دامن جھاڑتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ انہیں پروگرام کی کوئی اطلاع نہیں تھی اسی لئے اردو کا استعمال نہیں ہوا۔ اگر اکیڈیمی عہدیداروں کا یہ دعویٰ درست ہے تو ایسی صورت میں ریاستی وزیر اور حکومت کے پاس اردو اکیڈیمی کی بھی کوئی قدر نہیں ہے۔م