ارم منزل برقرار ہائیکورٹ میں تلنگانہ حکومت کی سرزنش

   

امجد خان
حیدرآباد میں فن تعمیر کی میراث کی 150 سال قدیم نشانی ’اِرم منزل‘ کو زمین دوز کردینے اور وہاں نیا اسمبلی بلڈنگ کامپلکس تعمیر کرنے کا فیصلہ حکومت تلنگانہ نے آخر کس قانون کے تحت کیا ہے؟ تلنگانہ ہائیکورٹ کا گزشتہ دنوں چیف منسٹر کے سی آر زیرقیادت ٹی آر ایس حکومت سے وہ سوال رہا جس کا اطمینان بخش اور ٹھوس جواب عدالت میں نہ سرکار کی پیروی کرنے والے دے پائے، اور نہ ریاست کی سب سے طاقتور سیاسی شخصیت اس سوال کا جواب دینے کے موقف میں دکھائی دیئے، کیونکہ یقینا انھیں اچھی طرح پتہ رہا ہوگا کہ اُن کا جواب قانونِ ارض کو مطمئن نہیں کرسکے گا!
چیف منسٹر تلنگانہ نے اِرم منزل کے سلسلے میں 18 جون کو اپنی کابینہ کو مطمئن کرلیا تھا لیکن دکن آرکیالوجیکل اینڈ کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، ڈاکٹر میر اصغر حسین، ’زندہ باد حیدرآباد‘ سے وابستہ جرنلسٹ پی یادگیری، پروفیسر پی ایل وشویشور راؤ اور بعض دیگر نے کابینی فیصلے کے خلاف مفاد عامہ کی عرضیاں ہائیکورٹ میں داخل کردیئے۔ عدالت نے فوری طور پر قدیم عمارت کے انہدام پر روک لگا دی اور پھر مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ فریقوں کے دلائل اور جوابی دلائل کا سلسلہ چلا۔ آخرکار کابینی فیصلے کے تقریباً تین ماہ بعد ریاستی حکومت کو بڑا جھٹکہ لگا جب تلنگانہ ہائیکورٹ نے شہر کے مصروف علاقہ پنجہ گٹہ کے قریب واقع دیڑھ سو سالہ ارم منزل کو منہدم کرتے ہوئے اس جگہ نیا اسمبلی کامپلکس تعمیر کرنے سے متعلق ریاست کے 18 جون کے کابینی فیصلے کو کالعدم کردیا۔ ٹی آر ایس حکومت کا منصوبہ تھا کہ ارم منزل کی جگہ لیجسلیچر کامپلکس تعمیر کیا جائے، جس میں تلنگانہ اسمبلی اور قانون ساز کونسل کے ساتھ اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور کونسل چیئرمین کیلئے ریزیڈنشل کوارٹرز بنانے تھے۔
چیف جسٹس راگھویندر سنگھ چوہان اور جسٹس شمیم اختر پر مشتمل بنچ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ارم منزل حیدرآباد کی فن تعمیر کی میراث اور شناخت ہے، آپ (ریاستی حکومت) اسے منہدم نہیں کرسکتے۔ بنچ نے حکومت کی دلیل مسترد کردی کہ ارم منزل قانون کی رو سے محفوظ عمارت نہیں ہے۔ عدالت نے ریاست کی سرزنش کی کہ اُس نے قدیم نشانی کو زمین دوز کردینے کا فیصلہ کرتے ہوئے قانون کو نظرانداز کیا ہے۔ ریاست کو ماضی کے آرڈر کی یاددہانی کرائی گئی کہ کسی بھی ہیریٹیج اسٹرکچر میں تبدیلی کیلئے ہائیکورٹ کی منظوری لینا ضروری ہے۔
اِرم منزل کے بارے میں کچھ حقائق جانتے ہیں۔ تربیت یافتہ آرکیٹکٹ نواب صفدر جنگ مشیرالدولہ فخر الملک نے اسے 1870ء میں ڈیزائن کیا اور اپنی فیملی کیلئے 150 کمروں کا محل تعمیر کیا۔ 36 ایکڑ اور 36 گنٹے پر پھیلا ہوا محل لال ٹیلے (تلگو زبان میں ’ایراگڈہ‘) پر واقع ہے۔ لفظ ’ایرّم‘ تلگو میں سرخ کو کہتے ہیں۔ اور لفظ ’اِرم‘ کے فارسی میں معنی ’جنت‘ کے ہیں۔ ہندو اور مسلم ثقافتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے نواب صفدر جنگ نے اس محل کا نام Irram Manzil رکھا۔ ابتداء میں تلگو لفظ ’ایرّم‘ کا مناسبت سے محل کا رنگ لال رکھا گیا تھا۔ موجودہ طور پر اس بلڈنگ کو Irrum Manzil کہا جاتا ہے۔ اِرم منزل شاہی تقاریب اور دیگر بڑے ایونٹس کیلئے استعمال ہوا کرتی تھی۔ بعد میں اس محل کو حکومت نے اپنے قبضے میں لے کر اسے ریکارڈز اسٹور ہاؤس کے طور پر استعمال کرنے لگی۔ چند سال بعد اسے دوبارہ پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کو سونپ دیا گیا۔ موجودہ طور پر اس محل میں انجینئرز اِن چیف اور چیف انجینئرز، روڈز اینڈ بلڈنگس اینڈ اریگیشن؍ کمانڈ ایریا ڈیولپمنٹ محکمہ جات کے دفاتر قائم ہیں۔
ہائیکورٹ بنچ نے ریاستی حکومت کے دلائل کو یکسر مسترد کرتے ہوئے واضح کردیا کہ حکومت تجاہل عارفانہ کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ ہیریٹیج بلڈنگس کی تباہی عوام سے اُن کی شناخت چھین لیتی ہے اور شہر کو اُس کے احساسِ انفرادیت سے محروم کردیتی ہے۔ ’’مستقبل کیلئے پلان بنانا اہم ہے، لیکن عظمت رفتہ کی حفاظت، اُس کا تحفظ اور اُسے فروغ دینا بھی مساوی طور پر اہم ہے۔‘‘110 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں بنچ نے کہا کہ حقائق پر نظرغایت ڈالنے پر ہی انکشاف ہوجاتا ہے کہ ریاستی حکومت نے 18 جون کو فیصلہ کرتے ہوئے قانون کے لازمی دفعات کو نظرانداز کیا۔ عدالت نے حکومتی استدلال میں خامی پائی کہ ارم منزل کو ریاست کے نئے ہیریٹیج ایکٹ کے تحت پروٹیکشن حاصل نہیں ہے کیونکہ اس نے قاعدہ 13 کی تنسیخ کردی۔ عدالت نے کہا کہ ریاست نے اس پر توجہ نہیں دی کہ زونل ریگولیشنس 1981ء کے ریگولیشن 13 کو حیدرآباد اَربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (HUDA) کی جانب سے اربن ایریاز ایکٹ کے سیکشن 59 کے تحت وضع کیا گیا تھا، اور مذکورہ اتھارٹی نے ارم منزل کو ہیریٹیج اسٹرکچر تسلیم کرتے ہوئے اسے پروٹیکشن عطا کیا ہے۔ ریاستی حکومت نے یہ حقیقت فراموش کردی کہ اسے ریگولیشن 13 کی تنسیخ کا اختیار حاصل نہیں کیونکہ یہ اختیار صرف حیدرآباد میٹروپولیٹن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو حاصل ہے۔ لہٰذا، حکومت کی جانب سے کی گئی تنسیخ ہی غیرقانونی ہوئی۔ بنچ نے مزید نشاندہی کی کہ حکومت اس حقیقت کو بھی نظرانداز کرگئی کہ ماسٹر پلان 2010ء کے تحت حیدرآباد کے بعض علاقوں کو ’اسپیشل ریزرویشن زونس‘ قرار دیا گیا ہے۔ ان زونس میں ’’ہیریٹیج بلڈنگس اور ہیریٹیج سائٹس‘‘ شامل ہیں۔ حکومت نے ایچ ایم ڈی اے ایکٹ کے دائرۂ کار پر صرفِ نظر سے کام لیا۔ اس ایکٹ کے سیکشن 18 کے تحت اراضی کو فروغ دینے کا اختیار صرف HMDA کو حاصل ہے جس کی اجازت ہیریٹیج عمارتوں میں ردوبدل کیلئے تک لازمی ہے۔ اراضی میں تبدیلی کیلئے بھی ایچ ایم ڈی اے ایکٹ کے سیکشن 19 کے تحت خصوصی طریقہ کار موجود ہے۔ ریاست نے ارم منزل کے معاملے میں اس قاعدہ کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ بنچ نے ریاست کو یہ یاددہانی بھی کرائی کہ اس نے قبل ازیں ایک آرڈر جاری کرتے ہوئے اس سے کہا تھا کہ کوئی ہیریٹیج اسٹرکچر کو ریگولیشن 13 کے تحت منہدم کرنے یا اس میں ردوبدل کرنے سے قبل ہائیکورٹ کی اجازت حاصل کی جائے۔
اس طرح کے سی آر حکومت کی ہائیکورٹ میں جم کر سرزنش ہوئی اور اُن کے نئے اسمبلی کامپلکس کی تعمیر کے منصوبے دھرے رہ گئے۔ تلنگانہ ہائیکورٹ میں ٹی آر ایس حکومت کی اس طرح درگت شاید پہلی بار ہوئی ہے، لیکن چیف منسٹر کے سی آر اپنی پہلی میعاد میں ایک اور قدیم عمارت عثمانیہ دواخانہ واقع افضل گنج کو منہدم کردینے کی بھی ضد کرنے لگے تھے۔ یہ معاملہ بھی ہفتوں چلتا رہا، آخرکار انجینئرنگ، آرکیٹکچر اور کئی دیگر متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی ٹیم نے عثمانیہ ہاسپٹل کا معائنہ کیا اور رپورٹ دی کہ یہ عمارت ایسی مخدوش بھی نہیں کہ اسے فوری منہدم کردیا جائے بلکہ اسے مناسب مرمت و دیکھ بھال کی اشد ضرورت ہے۔ عثمانیہ دواخانہ کی عمارت ہو کہ ارم منزل وہاں عوام کی خدمت ہورہی ہے یا پھر سرکاری دفاتر قائم ہیں۔ اتنا ہی نہیں تلنگانہ ہائیکورٹ اور متحدہ آندھرا پردیش ہائیکورٹ کی پُرشکوہ عمارت بھی نظام حکمرانی کے دور کی یادگار ہے۔ سارے تلنگانہ اور سابقہ حیدرآباد اسٹیٹ میں اَن گنت چھوٹی بڑی عمدہ عمارتیں حیدرآباد کے انڈین یونین میں انضمام (17 ستمبر 1948ء) سے قبل کی تعمیر کردہ ہیں، جن سے کرناٹک اور آندھرا پردیش کے مقابل تلنگانہ حکومت سب سے زیادہ استفادہ کررہی ہے۔ لیکن افسوس کہ گزشتہ 71 سال سے متواتر جمہوری حکومتوں کا ناقدری اور ناشکری کا رویہ رہا ہے۔ اکثر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ راست یا بالواسطہ اِس سرزمین سے مسلم حکمرانی کی شناختوں کو مٹانا چاہتے ہیں۔ وہ فن تعمیر کی تمام چھوٹی بڑی عمارتوں سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن اُن کی مرمت و دیکھ بھال کا شاذ و نادر خیال آتا ہے۔ مثال کے طور پر سردار محل چارمینار کی حالت زار دیکھئے۔ اسے نظام ششم میر محبوب علی خان نے 1900ء میں یورپین اسٹائل میں تعمیر کرایا تھا۔ 1965ء سے بلدیہ حیدرآباد (موجودہ جی ایچ ایم سی) کے تسلط میں ہے۔ وہاں داخل ہوتے ہی آپ کو ایسا معلوم ہوتا کہ حکام اس کے مخدوش ہوکر منہدم ہوجانے کا انتظار کررہے ہیں!٭