اروند کجریوال ‘ ذمہ داریوں میںاضافہ

   

سن رہا ہوں پیام صبح مگر
ہر طرف یہ غبار سا کیوں ہے
اروند کجریوال ‘ ذمہ داریوں میںاضافہ
دارالحکومت دہلی میں اروند کجریوال کی زیر قیادت عام آدمی پارٹی کی حکومت قائم ہونے جارہی ہے ۔ اتوار کو کجریوال تیسری معیاد کیلئے چیف منسٹر دہلی کی حیثیت سے حلف لیں گے ۔ انتخابات میں مہم جس شدت کے ساتھ چلائی گئی تھی اس کے بعد کجریوال کی کامیابی کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے ۔ ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے نام پر لڑے گئے انتخابات میں ایسے مسائل کو ہوا دینے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تھی جس کے نتیجہ میں سماج میںمنافرت اور اختلافات کو ہوا ملتی تھی اور سماجی ہم آہنگی متاثر ہوسکتی تھی ۔ انتخابی مہم کے دوران جو ریمارکس کئے گئے تھے وہ انتہائی ناشائستہ تھے اور یہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی بھی تھی ۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی روایات اور جو کلچر رہا ہے اس کے بھی مغائر یہ ریمارکس کئے گئے تھے ۔ ہندوستان میں ہر چند ماہ میں انتخابات عام بات ہیں لیکن کسی بھی انتخاب میں اس طرح کے سنگین ریمارکس نہیں کئے گئے تھے اور نہ اتنی نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی تھی جتنی دہلی میں ہوئی تھی ۔ ارکان پارلیمنٹ سے لے کر مرکزی وزراء تک نے اپنی زبان کو بے قابو کرتے ہوئے ریمارکس کئے تھے اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی کوئی پرواہ تک نہیں کی تھی ۔ ان ساری کوششوں کے باوجود اروند کجریوال کی قیادت والی عام آدمی پارٹی نے شاندار کامیابی حاصل کی اور 70 کے منجملہ 62 نشستوں سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے ترقیاتی نعرہ پر اپنے اقتدار کو برقرار رکھا تھا ۔ اب جو کامیابی کجریوال کو حاصل ہوئی ہے وہ بہت شاندار رہی ہے اور اس کامیابی نے جہاں کجریوال کے سیاسی قد میں اضافہ کردیا ہے وہیں ان کی ذمہ داریوں میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے ۔ حالانکہ انہوں نے گذشتہ پانچ سال کے دوران بھی کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں اور ان کی خدمات ہی کا ریکارڈ تھا جس کی وجہ سے انہیں کامیابی ملی ہے لیکن اب تیسری معیاد میں ان کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوا ہے اور انہیں مزید جدت اور نئے جوش و جذبہ کے ساتھ کام کرنا ہوگا ۔ انہیںا یک بار پھر عوامی خدمات کے ایک نئے ریکارڈ کیلئے اپنی کمر کس لینے کی ضرورت ہوگی ۔
جس طرح نریندر مودی کی قیادت میں گجرات میں بی جے پی نے مسلسل کامیابی کے بعد گجرات ماڈل کا نعرہ دیا تھا وہ ایک ہوا تھا ۔ حقیقت میں ترقی کہیں پس منظر میں چلی گئی تھی اور صرف ہندوتوا کے نا م پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے اسے ترقی کا ماڈل قرار دیا گیا تھا ۔ لیکن حقیقی معنوںمیں ترقی کا ماڈل اب دہلی نے پیش کیا ہے ۔ گذشتہ پانچ سال کے دوران دہلی کے بجٹ کو عوام پر کسی طرح کا نیا ٹیکس عائد کئے بغیر دوگنا کردیا گیا ہے ۔ 30 ہزار کروڑ روپئے کا بجٹ 60 ہزار کروڑ کردیا گیا ہے ۔ عوام پر کروڑ ہا روپئے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ سرکاری دواخانوں میں مثالی بہتری لائی گئی ہے ۔ دوائیں مفت مل رہی ہیں۔ ڈاکٹر بروقت کام کر رہے ہیں۔ عوام کو راحت مل رہی ہے۔ طبی معائنوں سے لے کر آپریشن تک مفت کئے جا رہے ہیں۔ تعلیمی انقلاب دہلی میں برپا کردیا گیا ہے ۔ سرکاری اسکولس خانگی اسکولوں سے زیادہ بہتر نتائج حاصل کر رہے ہیں۔ 200 یونٹ تک بجلی مفت سربراہ کی جا رہی ہے ۔ پانی مفت فراہم کیا جا رہا ہے ۔ ملک بھر میں جہاں مہنگائی کی مار سے عوام پریشان ہیںوہاں دہلی کے عوام کو اس سے کچھ حد تک راحت فراہم کرنے کیلئے عملی اقدامات کئے گئے ہیں۔ حقیقی معنوں میں ترقی ایسی ہونی چاہئے جس سے عوام کو راحت ملے ۔ صرف چند مٹھی بھر حاشیہ بردار کارپوریٹ طبقات کو راحتیں پہونچانا یا بڑی صنعتیں قائم کرنے کے نام پر ہزاروں ایکڑ اراضیات الاٹ کردینا ترقی نہیں ہوسکتی اور نہ اس کو کوئی ماڈل کہا جاسکتا ہے ۔
اپنے قیام کے محض دو تین سال میں اقتدار حاصل کرلینے والی عام آدمی پارٹی نے اپنی تمام تر ناتجربہ کاری کے باوجود ترقی کا اور عوامی خدمات کا جو دہلی ماڈل پیش کیا ہے وہ سارے ملک کیلئے مثالی کہا جا رہا ہے ۔ دہلی حکومت کی کچھ اسکیمات کو ملک کی دوسری ریاستیں نقل کرنے کیلئے آگے آ رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے سابقہ عہدیدار وغیرہ بھی دہلی حکومت کی اسکیمات سے متاثر ہوئے اور ان کا مشاہدہ کرنے کیلئے پہونچے تھے ۔ یہ سب کام اپنی جگہ مسلمہ ہیں تاہم اب کجریوال حکومت کو دہلی میں عوامی خدمات کے ساتھ دہلی کی حالت کو بدلنے کیلئے کام کرنا ہوگا ۔ آلودگی پر کنٹرول کرنا ہوگا ۔ صاف پانی پر توجہ دینی ہوگی اور ملک میں مثال بننے والی بڑی اور جامع یونیورسٹیز قائم کرنے کی ضرورت ہوگی اور ملک بھر کیلئے ایک بار پھر اپنی خدمات سے مثال قائم کرنے کی ضرورت ہوگی ۔