قرار پاؤں گا گر میں تو ٹوٹ جاؤں گا
سکونِ دل کے لئے مجھ کوبے قرار کرو
چیف منسٹر دہلی و عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال اپنے سنسنی خیز دعووں اور بیانات کی وجہ سے سرخیوں میںر ہنے کا فن جان چکے ہیں۔ وہ وقفہ وقفہ سے اس طرح کے بیانات دینے لگے ہیں جن کو میڈیا میں پوری تشہیر حاصل ہو رہی ہے ۔ ویسے بھی کجریوال سوشیل میڈیا کے موثر استعمال میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ کس وقت کیا دعوی کرنا ہے اس بات سے بھی بخوبی واقفیت رکھتے ہیں۔ تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی انہیںاپنے مفاد کیلئے استعمال کر رہی ہے اور وہ بخوشی استعمال بھی ہونے لگے ہیں۔ اروند کجریوال نے آج دو طرح کے دعوے کئے ہیں۔ ایک دعوی تو ان کا یہ ہے کہ بی جے پی نے انہیںپیشکش کی ہے کہ اگر وہ گجرات اسمبلی انتخابات میںمقابلہ سے دستبرداری اختیار کرتے ہیں تو ان کے دو وزراء منیش سیسوڈیا اور ستیندر جین کے خلاف جو مقدمات چل رہے ہیںانہیں برخواست کردیا جائیگا اور ان کے خلاف تمام الزامات سے دستبرداری اختیار کرلی جائے گی ۔ دوسرا دعوی انہوںنے یہ بھی کیا ہے کہ گجرات اسمبلی انتخابات میںاصل اپوزیشن کانگریس پارٹی صرف پانچ یا اس سے بھی کم نشستوں سے کامیابی حاصل کرے گی اور ان کی پارٹی عام آدمی پارٹی گجرات میں حکومت تشکیل دے گی ۔ اروند کجریوال کے دونوںہی دعوے ناقابل یقین لگتے ہیں۔ اس بات سے کوئی واقف نہیں ہوسکتا کہ جو انتخابات ابھی ہوئے نہیں ہیں اور نہ ہی ابھی امیدواروں کا اعلان ہوا ہے ان میں کون سی پارٹی کامیابی حاصل کرے گی ۔ اروند کجریوال کو یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس بنیاد پر یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ کانگریس صرف پانچ نشستوں تک محدود ہو کر رہ جائیگی ۔ اس تعلق سے کوئی بھی فیصلہ عوام کے ووٹ کے ذریعہ ہوسکتا ہے ۔ رائے دہندے چاہیں تو کانگریس کو ایک بھی نشست سے کامیاب نہ کریں لیکن ابھی جبکہ انتخابی عمل پوری طرح سے شروع بھی نہیں ہوا ہے اروند کجریوال کا دعوی ان شبہات کو تقویت دینے کیلئے کافی ہے کہ وہ بی جے پی کے ہاتھوں کا کھلونا بن چکے ہیں اور کانگریس مکت بھارت کے بی جے پی کے نعرہ کو پورا کرنے کا وہ ایک موثر ذریعہ بنتے جا رہے ہیں۔
کانگریس پارٹی پانچ نشستیں جیتے گی یا پھر ایک بھی نہیں جیتے گی یا پھر اقتدار پر فائز ہوجائے گی یہ سب کچھ گجرات کے عوام طئے کریں گے ۔ گجرات کے عوام اپنے ووٹ کے ذریعہ نہ صرف کانگریس بلکہ تمام جماعتوںاور امیدواروں کی سیاسی قسمت کا فیصلہ کریں گے ۔ اس طرح کے دعوے کرتے ہوئے اروند کجریوال در اصل میڈیا کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جو گودی میڈیا ہے وہ اس طرح کے دعووں کو بہت زیادہ تشہیر بھی فراہم کرتے ہوئے اس سارے معاملے میںاپنا رول بھی ادا کر رہا ہے ۔ کجریوال کا یہ دعوی بھی ناقابل فہم ہی کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی نے انہیں ان کے دو وزراء کے خلاف مقدمات ختم کرنے کی پیشکش کی ہے اگر وہ گجرات اسمبلی انتخابات میں مقابلہ کرنے سے گریز کریں۔ آج تقریبا تمام گوشوں کا یہ احساس ہے کہ عام آدمی پارٹی کو گجرات میں مقابلہ کیلئے بڑھا چڑھا کر پیش اسی لئے کیا جا رہا ہے کہ بی جے پی کو فائدہ ہوسکے ۔ بی جے پی حکومت کے خلاف جو ووٹ ہیں وہ تقسیم ہوجائیں اور بی جے پی کسی طرح سے وہاں اپنے اقتدار کو برقرار رکھ سکے ۔ کجریوال کی جماعت کو مقابلہ سے دستبرداری کی ترغیب دینے کی بات ناقابل فہم ہی کہی جاسکتی ہے ۔ یہ بات اس لئے بھی قابل قبول نہیں لگتی کہ اروند کجریوال ان درمیانی افراد کے نام بتانے سے گریز کر رہے ہیں جنہوں نے یہ پیشکش ان تک پہونچائی تھی ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پیشکش راست نہیں بلکہ بالواسطہ طور پر ان تک پہونچی تھی لیکن وہ نام نہیں بتا رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی کی جانب سے ملک بھر کی مختلف ریاستوں میں ارکان اسمبلی اور ارکان پارلیمنٹ کو خریدنے میں مہارت رکھتی ہے ۔ یہ کوشش کئی ریاستوںمیںہوئی ہے ۔ بہار میں اس کوشش کو نتیش کمار نے ناکام بنادیا ۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی کامیاب ہوچکی تھی ۔ تلنگانہ میں بھی اسی طرح کی کوشش کی گئی اور کروڑہا روپئے کی پیشکش کی گئی تھی ۔ تاہم تلنگانہ میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے ایسی پیشکش کرنے والوں کو نہ صرف گرفتار کیا بلکہ ان کی فون پر بات چیت کو بھی سوشیل میڈیا پر پیش کردیا ۔ جو لوگ وہاں پہونچے تھے ان کی شناخت بھی سب پر ظاہر کردی ۔ اروند کجریوال کو اگر واقعی اس طرح کی پیشکش کی گئی ہے تو انہیں بھی ایسا کرنے والوں کے ناموں کا افشاء کرنا چاہئے اور ان کے خلاف مقدمات بھی درج کروانا چاہئے ۔ محض تشہیری حربہ اختیار کیا جاتا ہے تو اس سے صرف ان شبہات ہی کو تقویت حاصل ہوگی کہ اروند کجریوال بھی بی جے پی کو فائدہ پہونچاناچاہتے ہیں۔
آج منوگوڑ کا انتخابی نتیجہ
تلنگانہ کے حلقہ اسمبلی منوگوڑ کے انتخابی نتیجہ کا آج اعلان ہوگا۔ منوگوڑ میں انتہائی شدت کے ساتھ مہم چلاتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم چلائی تھی ۔ ٹی آر ایس کے حق میں انتخابی سروے دکھائی دے رہے ہیں۔ ٹی آر ایس نے بھی اس حلقہ میں ساری طاقت جھونک کر مقابلہ کیا تھا ۔ بی جے پی اور کانگریس نے بھی حالانکہ انتخابی مہم میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تاہم دیکھنا یہ ہے کہ رائے دہندے کس سے متاثر ہوئے ہیں اور کس کے حق میں انہوں نے اپنا فیصلہ سنایا ہے ۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ ساری ریاست کے عوام کی نظریں منوگوڑ کے انتخابی نتیجہ پر مرکوز ہیں۔ جو کوئی بھی جماعت اس بار کامیابی حاصل کرے گی اس پر ذمہ داری میں اضافہ ہوگا اور عوام کی توقعات کو پورا کرنے کیلئے اسے عہد کرنا ہوگا ۔ جس طرح سے انتخابی مہم چلائی گئی تھی وہ افسوسناک ہی کہی جاسکتی ہے کیونکہ تقریبا تمام جماعتوں نے وہاں پیسے اور طاقت کا بے دریغ استعمال کیا ہے ۔ انہوں نے ووٹ عوام کی مرضی سے حاصل نہیں کئے ہیں بلکہ پیسے اور طاقت کے بل پر خریدے ہیں۔ جو کچھ بھی انتخابی مہم میں ہوا آئندہ انتخابات میں ایسے حربوں سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ اب جبکہ پولنگ ہوچکی ہے اور نتیجہ آنے والا ہے تو سیاسی جماعتوںاور امیدواروں کو یہ عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ پنی کامیابی کے بعد عوام کے مسائل پر توجہ دیں گے اور جمہوری عمل میں یقین رکھتے ہوئے ان کی حقیقی معنوں میں تائید حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ یہی جمہوریت کا تقاضہ ہے ۔