اس رپورٹ میں اجاگر کیاہے کہ عوام‘ شہری اور انسانی سلامتی پر کس طرح مخالف شورش تشویش کا سلسلہ جاری ہے‘ جو تحفظات کی خلاف ورزی کا سبب بن رہا ہے
جموں کشمیر کے خصوصی موقف کو ارٹیکل370کی برخواستگی‘ جس کے پیش نظر سخت لاک ڈاؤ ن نافذکردیاگیاتھاکے ساتھ ختم کردئے جانے کے 18ماہ بعد سابق کی ریاست میں جس طرح سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جاتی تھیں وہ سلسلہ ہنوز جاری ہے‘ حقوق کے حالات پر ایک رپورٹ میں یہ بات بتائی گئی ہے
مذکورہ فورم برائے جموں کشمیر میں انسانی حقوق کے شریک نگران کار سابق سپریم کورٹ جج جسٹس مدن بی لاکور اور سابق جموں کشمیر انٹرلوکیٹر رادھا کمار کررہے ہیں نہ اجاگر کیاہے کہ عوام‘ شہری اور انسانی سلامتی پر کس طرح مخالف شورش تشویش کا سلسلہ جاری ہے‘ جو تحفظات کی خلاف ورزی کا سبب بن رہا ہے۔جس میں حبس بیجا‘ غیر قانونی تحویل سے روک‘ اور بچوں کی گرفتاری تحویل پر سخت تحدیدات شامل ہیں۔
ریاست میں براڈ بینڈ خدمات پر تحدیدات کے مسائل کا فورم نے ذکر کیاہے۔ اس میں کہاگیاہے کہ”مذکورہ 4جی خدمات پر اٹھارہ ماہ کے امتناعات کا اثر صحت عامہ پر پڑا ہے‘ جس سے جموں اور کشمیر کی عوام میں تناؤ او رصدمہ کی صورتحال پیدا ہوئی ہے اورہندوستان کے ساتھ جموں کشمیر کے دستوروں کے تحت طبی نگہداشت اور صحت عامہ کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے“۔
اس رپورٹ میں ضمانت کے حق کی تردید‘ پی ایس اے اور یو اے پی اے جیسے سخت گیر قوانین کا اختلاف کو ختم کرنے کے بیجا استعمال کی طرف بھی اشارہ کیاگیاہے۔
اس میں مزیدکہاگیاہے کہ علاقائی قوانین میں مزیدتبدیلیوں کے نتیجے میں سیاسی اور معاشی حقوق پر مزید کار ضرب پڑی ہے۔
رپورٹ کا کہنا ہے کہ ”شدید تنقید کی جانے والی نئی میڈیاپالیسی کے نفاذ نے 20سے زائد میڈیا اداروں کو بند ہونے پر مجبور کردیاہے“۔ اس رپورٹ میں سختی سے تمام باقی سیاسی محروسین کی رہائی کی سفارش کی گئی ہے۔
مذکور ہ رپورٹ کا کہنا ہے کہ ”پبلک سیفٹی ایکٹ(پی ایس اے) اور احتیاطی تحویل کے قوانین کو برخواست کیاکئے‘ تاکہ اس کا سیاسی مخالفین کے خلاف غلط استعمال نہیں کیاجاسکا‘ یاپھر اس میں ترمیم لائیں تاکہ اس کو اپنی ائینی اقدار کے خطوط پر لاسکیں“۔
اس رپورٹ میں مطالبہ کیاگیاہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں خاطی پائے جانے والے نیم فوجی دستوں اور پولیس جوانوں کے خلاف کاروائی کی پہل کی بھی فورم نے مانگ کی ہے‘ بالخصوص حالیہ دنوں میں صحافیو ں پر کئے گئے حملوں پر افسوس کے ساتھ یہ کام کیاجانا چاہئے