ارکان پارلیمنٹ کی معطلی

   

مرکزی حکومت کی جانب سے آج پارلیمنٹ سے جملہ 15 ارکان پارلیمنٹ کو معطل کردیا گیا ہے ۔ ان میں 14 ارکان لوک سبھا اور ایک رکن راجیہ سبھا شامل ہیں۔ پارلیمنٹ میں کل سکیوریٹی میں خامی اور لاپرواہی کا جو معاملہ درپیش ہوا تھا اس پر ایوان میں حکومت سے جواب دینے اور مباحث کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کرنے پر ان ارکان کو ایوان سے معطل کردیا گیا ۔ ایک رکن کو شام میں بحال بھی کردیا گیا کیونکہ ان کا نام معطل شدہ ارکان پارلیمنٹ کی فہرست میں غلطی سے شامل کردیا گیا تھا اور وہ اس وقت ایوان میں نہیں بلکہ اپنی آبائی ریاست ٹاملناڈو میں موجود تھے ۔ پارلیمنٹ مباحث اور سوال جواب کا مرکز ہے ۔ پارلیمنٹ ہماری جمہوریت کا ایک اہم ترین اور مقدس ادارہ سمجھا جاتا ہے ۔ حکومت کو وہاں اپوزیشن کی جانب سے ظاہر کی جانے والی تشویش یا پوچھے جانے والے سوالات کا جواب دینا ہوتا ہے ۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ حکومت سخت فیصلے کرتے ہوئے یا ارکان پارلیمنٹ کو ایوان سے معطل کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری سے فرار حاصل نہیںکرسکتی ۔ اسے ہر حال میں ارکان کے سوالات کے جواب دینا چاہئے ۔ حکومت کو عددی طاقت کے بل پر حکومت چلانے یا ایوان کی کارروائی چلانے کی بجائے پارلیمانی جمہوریت کے اصولوں کے مطابق فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایوان میں احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کرنا اپوزیشن ارکان کا فریضہ ہے ۔ وہ اپنی ذمہ داری پوری کر رہے تھے ۔ اگر انہوں نے نامناسب رویہ اختیار کیا بھی تو انہیں حکومت اپنے جواب سے مطمئن کرسکتی تھی ۔ ایوان کی کارروائی بھی پرسکون اور منظم انداز میں چلانا اپوزیشن کا نہیں بلکہ خود حکومت کا ذمہ ہے ۔ جس طرح حکومت پارلیمنٹ کی سکیوریٹی کو برقرار رکھنے میں کل ناکام ہوگئی تھی اسی طرح آج حکومت ایوان کی کارروائی کو پرسکون اور منظم انداز میں چلانے کے فریضہ کو بھی پورا نہیں کرپائی ۔ ارکان پارلیمنٹ کو بڑی تعداد میں ایوان سے سارے سشن کیلئے معطل کردینا کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ اس سے حکومت کے جارحانہ تیور اور نامناسب رویہ کا پتہ چلتا ہے ۔
ارکان پارلیمنٹ ملک کے عوام کی آواز ہوتے ہیں۔ ان کے نمائندے ہوتے ہیں۔ ان کی پیروی کرتے ہیں اور عوام کو درپیش مسائل اور حکومت کی ناکامیوں اور خامیوں کو اجاگر کرنا ان کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ یہ بھی درست ہے کہ اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ کو بھی ایوان میں نظم بحال کرتے ہوئے کام کرنا چاہئے ۔ ایوان کا وقت ضائع کرنے سے گریز کرنا چاہئے تاہم یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جوکوئی جماعت اپوزیشن میں ہوتی ہے وہ اس ذمہ داری کو فراموش کردیتی ہے ۔ سارے اصول اور قواعد اسی وقت یاد آتے ہیں جب اقتدار میں ہوتے ہیں۔ ایوان کی کارروائی چلانے اور ساری اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے آگے بڑھنا حکومت کا ذمہ ہے اور اپوزیشن کی اخلاقی ذمہ داری اہم مسائل پر حکومت سے تعاون کرنا ہے ۔ تاہم پارلیمنٹ کی سکیوریٹی جیسے اہمیت کے حامل مسئلہ پر حکومت سے جواب طلب کرنا بھی اپوزیشن کے ارکان پارلیمنٹ کا فریضہ ہے ۔ ان کا رویہ کچھ جارحانہ ضرور ہوسکتا ہے لیکن ان کا مطالبہ غیر درست نہیں ہوسکتا ۔ بی جے پی اس مسئلہ پر تنقیدوں کا شکار ہونے لگے ہیں۔ حکومت کو بھی سکیوریٹی کی سنگین لاپرواہی کا جواب دینے کی ضرورت ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت جوابدہی سے بچنا چاہتی ہے ۔ ویسے بھی موجودہ حکومت کی روایت رہی ہے کہ وہ خود سے ہونے والے سوالات پر جواب دینے تیار نہیں ہوتی ۔ جواب طلب کرنے والوں کو اسی طرح کی کارروائیوں سے خاموش کروادیا جاتا ہے ۔
جس طرح سے اپوزیشن کے ارکان پارلیمنٹ کو خاموش کروایا گیا ہے وہ فیصلہ مناسب نہیں ہوسکتا ۔ پارلیمانی جمہوریت میں خاص طور پر اپوزیشن کی آواز کو دبانے کا جواز نہیں ہوسکتا ۔ حکومت کو اپنے جواب دہی کے ذمہ سے فرار نہیں ہونا چاہئے ۔ حکومت کو ہر سوال کا جواب دینا چاہئے اور پارلیمنٹ کی سکیوریٹی میں نقص یا کوتاہی ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس پر حکومت کو جواب دینا چاہئے ۔ اس طرح سوال پوچھنے والے ارکان پارلیمنٹ کو ایوان سے معطل کرتے ہوئے ذمہ داری سے فرار حاصل کرنا کوئی اچھی علامت نہیں ہے ۔ اس سے ملک کے عوام کے ذہنوں میں بھی اندیشے اور شبہات جنم لے سکتے ہیں۔