اساتذہ کی تقرری کو رد کرنے کے فیصلے پر سپریم کورٹ کا حکم التوا

   

کولکاتا: سپریم کورٹ نے منگل کو کلکتہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے جس میں ایک ساتھ 25,753اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ کی تقرری کو منسوخ کردیا گیا تھا پر روک لگادی ہے ۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس جے بی پارڈی والا اور منوج مشرا پر مشتمل بنچ نے تاہم سی بی آئی کو اپنی تحقیقات جاری رکھنے اور ریاستی کابینہ کے ارکان سے بھی تحقیقات کرنے کی اجازت دیدی ہے تاہم سپریم کورٹ نے سی بی آئی سے کہا کہ وہ تحقیقات کے دوران کسی مشتبہ شخص کو گرفتار کرنے جیسی فوری کارروائی نہ کرے ۔اس سے قبل سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ اساتذہ تقرری گھوٹالہ ‘‘ادارجاتی دھوکہ دہی ’’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاستی حکومت کو اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی تقرری سے متعلق ڈیجیٹل ریکارڈ کو برقرار رکھنے کے پابند ہیں۔سپریم کورٹ کلکتہ ہائی کورٹ کے 22 اپریل کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے ایک بیچ کی سماعت کر رہی تھی جس میں25,753اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی تقرری کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنے تبصرے میں کہا کہ سرکاری ملازمتیں بہت نایاب ہیں۔ اگر عوام کا ایمان جاتا ہے تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ یہ ادارہ جاتی گھوٹالہ ہے ۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آج سرکاری ملازمتیں انتہائی نایاب ہیں اور انہیں سماجی نقل و حرکت کے لیے دیکھا جاتا ہے ۔ نظام میں کیا رہ جاتا ہے اگر ان کی تقرریوں کو بھی بدنام کیا جائے ؟لوگوں کا ایمان ختم ہو جائے گا، آپ اسے کیسے دیکھ رہے ہیں؟
سپریم کورٹ نے حکومت سے کہا کہ آپ کے پاس ڈیٹا ہے یا آپ کے پاس نہیں ہے …. آپ ڈیجیٹائزڈ شکل میں دستاویزات کو برقرار رکھنے کے پابند تھے ۔بنچ نے ریاستی حکومت کے وکلاء سے کہا اب ظاہر ہے کہ کوئی ڈیٹا نہیں ہے ۔ آپ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ آپ کا سروس پرووائیڈر آپ کو نگران کنٹرول برقرار رکھنا تھا۔