اسرائیلی جاسوسی سافٹ ویر نئے وزیر کی جھوٹ بیانی

   

پی چدمبرم

ایک وزیر (چاہے وہ مرد ہو یا خاتون) اپنے عہدہ اور رازداری کا حلف اس طرح لیتا ہے کہ وہ بناء کسی خوف اور کسی کی تائید و حمایت کے بغیر اپنے فرائض انجام دے گا / دے گی۔ کسی بھی طرح غلط نیت و ارادوں کے ساتھ یا جذبات و محبت میں بہہ کر اپنے فرائض انجام نہیں دے گا / دے گی۔ اب تک تو سب ٹھیک ہے یعنی حلف لینے تک تو سب ٹھیک ہے لیکن سچائی کے اعتبار کے لئے کوئی بالواسطہ بھی ہے۔ سچ کہوں گا سچ کے سوا کچھ نہیں کروں گا (یہ الفاظ عدالت میں گواہ کے لئے ادا کرنے لازمی ہوتے ہیں) تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو وزراء دیانتداری، غیر جانبداری اور سچائی کے ساتھ بنا کسی کے اثر میں آئے اپنے فرائض انجام دینے کا عہد کرتے ہیں وہ حقیقت میں اپنے اس عہد پر قائم رہتے ہیں؟ بظاہر تو ایسا نہیں لگتا۔ سچائی میں خود کئی تغیرات ہوتے ہیں اور اس میں کوئی بدلاؤ آتے رہتے ہیں (اس طرح جس طرح SARS کورونا وائرس۔ 2 کی شکل و ہیئت میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں) ایک ہی سبب یا وجہ سے سچائی ایک ہوتی ہے یا کئی سچائیاں ہوتی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو سچائی کی 50 پرچھائیاں ہوتی ہیں۔ مکمل سچائی اور متبادل سچائی بھی ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی وزیر سچائی کی مذکورہ اقسام میں سے ایک سچائی کا انتخاب کرسکتا ہے اور جس کا انحصار موقع محل پر ہو۔
کابینہ میں شامل کئے گئے ایک نئے وزیر نے اپنی پہلی تقریر میں ایسا ہی کیا جب سیاسی قائدین، ججس، صحافیوں، مہذب سماج کے جہدکاروں، طلبہ، کاروباری شخصیتوں اور سماجی دوستوں اور منتخبہ لوگوں کی جاسوسی پر ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ صحافتی اداروں اور صحافیوں کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں اس بات کے انکشافات ہوئے کہ ہزاروں موبائیل فونس صارفین (بااثر صارفین) کے موبائیل فون نمبرات کو Person of Interest کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں موبائیل فونس میں اسرائیلی جاسوسی سافٹ ویر (اسپائی ویر) داخل کیا گیا اور انھیں ہیک کیا گیا اور یہ سب کچھ پیگاسیس نامی مال ویر استعمال کرتے ہوئے کیا گیا۔ اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جن وزیر موصوف نے پیگاسیس جاسوسی سافٹ ویر حکومتوں کی جانب سے استعمال کئے جانے کی تردید کی ان کا نام بھی Person of Interest کی فہرست میں شامل ہے۔
دیومالائی دور میں سفر
(یہاں دیومالائی قصوں کا مختصر حوالہ دینا غلط نہیں ہوگا) مثال کے طور پر یونانی دیومالائی قصے کہانیوں میں پیگاسیس ایک ایسا گھوڑا ہوتا ہے جس کے بازوؤں میں پر لگے ہوتے ہیں جو میڈوس کی خونی طاقت سے جست لگاتا ہے پھر وہ زیوس کا خادم بن جاتا ہے اور زیوس اسے ہر مقام پر جہاں ضرورت پڑے لے جاتا ہے چاہے وہ طوفان بادوباراں ہو یا بجلی کڑکنے یا گرنے کا مقام ہو پیگاسیس ایک پراسرار تخلیق ہے جس میں ہر چیز کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور یونانی دیومالائی کہانیوں کے مطابق وہ سفر جنت کی علامت ہے یہ مودی ہے تو ممکن ہے جیسے نعرہ کی طرح ہے)
اب آپ کو پیگاسیس کے بارے میں بتاتے ہیں، پیگاسیس دراصل اسرائیل کے ایک گروپ این ایس او کی ملکیت والا ایک سافٹ ویر ہے۔ یہ اس طرح حکومت ہند کا غلام ہے جس طرح یونانی دیومالائی کہانیوں کا پروں والا گھوڑا تھا اور جس کے ذریعہ حکومت اسے حاصل غیرمعمولی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے خاص طور پر جب چاہے جسے چاہے ضرورت پڑنے پر گرفتار کرسکتی ہے اور حراست میں لے سکتی ہے (جو آج کل اکثر دیکھا جارہا ہے) اور یہ بھی یونانی دیومالائی گھوڑا کی طرح اچھے دن کی طرف سفر پر لے جاتا ہے۔اپنی فراخدلی اور درگذر کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر موصوف جاسوسی کی فہرست میں اپنا نام ہونے کے باوجود جاسوسی کے الزامات کے خلاف حکومت کے دفاع میں اُٹھ کھڑے ہوئے۔ تاہم ایک اوسط شہری جو اوسط تعلیم کا حامل ہو وہ منشور منطق سے واقف نہیں ہوتا۔ وہ صرف یہی چاہتا ہے کہ راست بازی سے کئے گئے سوال کا جواب دیا جائے اور وہ سوال یہ ہے کہ آیا پیگاسیس اسپائی ویر پر استعمال کرتے ہوئے جو نگرانی کی گئی یا کی جارہی ہے وہ جائز ہے یا نہیں؟ وزیر موصوف یقینا جائز و ناجائز قانونی و غیر قانونی میں فرق جانتے ہیں وہ اس سوال کا جو شہریوں نے کیا ہے جواب دے سکتے ہیں لیکن اس کے لئے انھیں سب سے پہلے چند بنیادی سوالات کے جوابات جاننے ہوں گے۔
سادہ سوالات
٭ آیا اس بات کے کوئی شواہد نہیں کہ پیگاسیس اسپائی ویر ہندوستان میں مختلف شخصیتوں کے فونس میں داخل کیا گیا یعنی ان فونس میں پیگاسیس کی دراندازی کرائی گئی؟
٭ آیا حکومت نے اپنی کسی ایک ایجنسی کے ذریعہ پیگاسیس جاسوسی سافٹ ویر حاصل کیا۔
٭ اس سافٹ ویر کے حصول کے لئے کتنی رقم ادا کی گئی اور ہر فون میں سافٹ ویر انسٹال یا نصب کرنے کتنی فیس دی گئی (جو قیمتیں منظر عام پر آئیں لیکن Bulk Orders پر ڈسکاؤنٹ بھی دیا گیا)
٭ آیا وزیر موصوف نے یہ دیکھنے کے لئے کہ ان کا فون بھی ہیک کیا گیا اس کی فارنسک جانچ کرانے کی پیشکش کی (متعلقہ مدت کے دوران استعمال کیا گیا)
یہاں مفاد کا ایک اور نکتہ ہے۔ وزیر موصوف نے اپنے بیان میں این ایس او کے تردیدی بیان کا بھی حوالہ دیا جس میں این ایس او نے کہا تھا کہ اس قسم کے آلات کسی کے لئے بھی کہیں بھی کسی وقت بھی کھلے عام دستیاب نہیں اور عام طور پر سرکاری ایجنسیاں اس کا استعمال نہیں کرتی۔ مجھے اس بات کا خوف ہے کہ یونانی دیومالائی کہانیوں سے Homer Nods (بڑے سے بڑے آدمی سے بھی غلطی سرزد ہوسکتی ہے) مستعار لیا ہو۔ این ایس او گروپ نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’’این ایس او اپنی ٹیکنالوجیز مطلق العنان حکومتوں کی نفاذ قانون کی ایجنسیوں اور انٹلی جنس ایجنسیوں کو فروخت کرتی ہے۔ این ایس او گروپ نے جن خدمات کی فراہمی کے بارے میں جو حوالہ دیا اس میں HLR لک اپ سرویس، پیگاسیس نہیں جیسا ہوسکتا ہے۔ ویسا رہنے دیں۔ اگر پیگاسیس کی صرف مطلق العنان حکومتوں کو فروخت کیا گیا تو سادہ سا سوال یہ ہے کہ آیا حکومت ہند بھی ان مطلق العنان حکومتوں میں شامل ہے۔یہ بڑی بدبختی کی بات ہے کہ نئے وزیر کو اپنی نئی اننگز کا آغاز ایک چیچی وکٹ پر کرنا پڑا لیکن وزیر صاحب کو جوابات دینا چاہئے اس لئے کہ فرانس اور اسرائیل کو جوابات مل جائیں اور وہ ان جوابات کو ہم سے شیئر کریں۔
آیا پرائیویسی کی کوئی قدر و قیمت ہے۔ میرے پاس مودی حکومت کے لئے ایک مشورہ ہے اسے آپ اشتعال انگیز مشورہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ آتما نربھر بھارت (خود مکتفی ہندوستان) کے اس دور میں یہ بڑی افسوس کی بات ہے کہ حکومت ہند نے قدیم ہندوستان کے شاندار راجاؤں کی جانب سے استعمال کردہ کسی ایک ہندوستانی گھوڑوں کے نام پر رکھے گئے جاسوسی ویر کا استعمال کرتی حکومت بجلک نامی اسپائی ویر تلاش کرسکتی یہ گھوڑا دراصل گجراتی ڈرامہ اشوامیہ کا ایک کردارہے اور اسے چنو مودی جیسے شاعر اور پلے رائٹ نے تحریر کیا ہے یا ہماری حکومت پروکتسا، کمارا وشنو، سمدرا گپتا، پولا کیشین سوم اور راجا راجا چولہ سے اس معاملہ میں عزم و حوصلہ پاتے۔