اسرائیلی قیدیوں کی بازیابی کیلئے تل ابیب میں احتجاج

,

   

نئی دہلی۔29 جون (ایجنسیز) قابض اسرائیل کے مختلف شہروں بالخصوص تل ابیب اور مقبوضہ بیت المقدس میں ہفتے کی شب ہزاروں صہیونی مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ احتجاج ان اسرائیلی قیدیوں کی بازیابی کیلئے کیا گیا جنہیں فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے غزہ میں قید کر رکھا ہے۔ عبرانی اخبار ’’ہارٹز‘‘ کے مطابق ان مظاہروں میں بڑے پیمانے پر شہریوں کی شرکت دیکھی گئی۔یہ احتجاج اس وقت دوبارہ شروع ہوا جب قابض اسرائیل کی جانب سے ایران پر بارہ روزہ فوجی حملہ مکمل ہوا جو 13 جون کو شروع ہوا تھا۔ اس دوران اسرائیل، امریکہ اور ایران کے مابین شدید جھڑپیں اور حملے دیکھے گئے۔ بالآخر 24 جون کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان کیا۔صہیونی مظاہروں کے دوران اس وقت ایک نئی بحث چھڑ گئی جب امریکی صدر نے جمعہ کے روز یہ اشارہ دیا کہ ممکنہ طور پر آئندہ ہفتے غزہ میں بھی جنگ بندی کا اعلان ہو سکتا ہے۔ امریکی بیان پر قابض اسرائیلی حکومت میں بے چینی پھیل گئی اور صہیونی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی حکام نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم اسرائیل نیتن یاہو کے موقف میں کسی تبدیلی کے آثار نہیں ہیں۔اُدھر فلسطینی اسلامی تحریک حماس نے نہایت واضح اور دوٹوک موقف اختیار کیا ہے کہ وہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر مبنی ایک متوازن معاہدے کیلئے تیار ہے بشرطیکہ غزہ میں جاری نسل کشی ختم کی جائے، محاصرہ مکمل طور پر اٹھایا جائے اور تمام فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ مگر نیتن یاہو اپنی سیاسی بقاء کی خاطر مسلسل نئے مطالبات پیش کر رہا ہے جن میں فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے جیسے ناقابل قبول شرائط شامل ہیں۔ صہیونی اپوزیشن نے نیتن یاہو کے اس طرز عمل کو کھلی چالاکی اور وقت حاصل کرنے کی سیاسی کوشش قرار دیا ہے۔امریکہ کی جانب سے صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے ایک تجویز پیش کی ہے جس کے تحت ابتدائی 60 دنوں کی جنگ بندی میںنصف زندہ قیدی قتل ہونیوالے اسرائیلی قیدیوں کی نصف نعشیں واپس کی جائیں گے اور اسی دوران مکمل جنگ بندی کیلئے مذاکرات جاری رہیں گے۔حماس نے اس تجویز کا جواب ثالثی کرنے والوں کو دے دیا ہے اور واضح کر دیا ہے کہ کسی بھی معاہدے میں مکمل جنگ بندی، غزہ سے مکمل انخلاء اور انسانی امداد کی فراہمی کی مکمل ضمانت لازمی ہونی چاہیے۔