اسرائیل نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک بار پھر ساری دنیا سے دھوکہ کیا ہے اور اس نے غزہ پر غیرانسانی حملوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ کسی اشتعال یا کسی وجہ کے بغیر اسرائیل نے غزہ پر بمباری کی اور زمینی فوج کی کارروائی بھی کی جس کے نتیجہ میں 90 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔ ان میں تقریبا دو درجن بچے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اسکولس اور نہتے فلسطینیوں کے ٹینٹس کو بھی نشانہ بناتے ہوئے بہیمانہ کارروائی کی گئی ہے ۔ یہ کارروائیاں غزہ جنگ بندی معاہدہ کی سنگین اور صریح خلاف ورزی ہے اور جو اندیشے لاحق ہوئے ہیں ان کے مطابق یہ کارروائی غزہ کے بعد مغربی کنارہ کو بھی نشانہ بنانے کا نقطہ آغاز بھی ہوسکتی ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر سارے علاقہ کی صورتحال میں سنگین تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں اور جنگ ختم ہونے کے جو امکانات نظر آ رہے تھے وہ ایک بار پھر ختم ہوجائیں گے اور سارا علاقہ جنگ کی زد میں آسکتا ہے ۔ اس کیلئے سراسر اسرائیل ذمہ دار ہے اور اگر امریکہ یا ان ممالک کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جاتی جنہوں نے غزہ جنگ بندی معاہدہ کو یقینی بنایا تھا تو پھر خود امریکہ بھی صورتحال کا ذمہ دار ہوگا ۔ جس وقت سے غزہ جنگ بندی معاہدہ ہوا تھا اس وقت سے ہی یہ اندیشے کچھ گوشوں کی جانب سے ظاہر کئے جا رہے تھے کہ اسرائیل کسی بھی وقت جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی کارروائیوںکا آغاز کرسکتا ہے اور یہ اندیشے اب درست بھی ثابت ہونے لگے ہیں ۔ اسرائیل نے کسی وجہ اور کسی اشتعال کے بغیر غزہ پر حملے کردئے ہیں اور فلسطینیوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے ۔امریکہ اور دیگر ممالک کو اس کارروائی اور حملوں کا نوٹ لینے کی ضرورت ہے اور اسرائیل کے خلاف تحدیدات عائد کرتے ہوئے اس کواس طرح کے بہیمانہ حملوں کو روکنے کیلئے پہل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر اسرائیل پر فوری کوئی کارروائی نہیں کی گئی اورا سے روکا نہیں گیا تو پھر اس کے عزائم مزید شدت اختیار کرسکتے ہیں اور وہ غزہ کی طرح مغربی کنارہ میں بھی اسی طرح کی غیرانسانی اور وحشتناک کارروائیاں شروع کرسکتا ہے ۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ساری دنیا میں کئی جنگیں رکوانے کا دعوی کرتے ہیں۔ انہوں نے روس کو یوکرین کے ساتھ جنگ بندی کیلئے مجبور کرنے روس کا تیل خریدنے والے ممالک پر بھی شرحیں عائد کرنے سے گریز نہیں کیا اور روس پر دباؤ بنایا جا رہا ہے ۔ اسی طرح کی حکمت عملی اسرائیل کے خلاف بھی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ خود اسرائیل پر تحدیدات عائد کرنے کی ضرورت ہے اور جو ممالک اسرائیل کے ساتھ تجارت جاری رکھے ہوئے ہیں ان کو بھی روکنے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ غزہ کی دو سالہ تباہ کن جنگ کا اثرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مغربی کنارہ کو بھی دوزخ بننے کا موقع نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اسرائیل کے حملوں کا کوئی جواز ہوسکتا ہے ۔ اسرائیل پر لگام لگانا وقت کی اہم ضرورت ہے اور تحدیدات کے بغیر یا کسی طرح کی دباؤ کی پالیسی کے بغیر اسرائیل کسی کو خاطر میں لانے والا ملک نہیں ہے ۔ اس کے جارحانہ اور وحشیانہ تیور سارے فلسطین کیلئے خطرہ بنے ہوئے ہیں اور فلسطینیوں کی شہادتوں کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ یہ سلسلہ فوری روکنے کیلئے امریکہ اور علاقہ کے عرب ممالک کے علاوہ یوروپی برادری کو بھی آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ جتنا جلد ممکن ہوسکے اسرائیل پر لگام کسی جانی چاہئے تاکہ اس کے وحشیانہ عزائم سے اسے روکا جاسکے اور فلسطینیوں کی زندگی کو ایک بار پھر جہنم بننے سے روکا جاسکے ۔ امریکہ اور دیگر ممالک ایسا نہیں کرتے ہیں کہ تو آئندہ کے حالات کی ذمہ داری ان ممالک پر بھی عائد ہوگی ۔
دنیا کے کئی ممالک نے مملکت فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے ۔ اس صورتحال میں دو قومی حل دریافت کرنے کی کوششیں تیز کردی جانی چاہئیں کیونکہ اس کے بغیر اسرائیل پر لگام لگانا بھی ممکن نظر نہیں آتا ۔ امریکی صدر جس طرح جنگ بندیوں کا سہرا اپنے سر لیتے ہیں اور خود غزہ جنگ بندی کا بھی انہوں نے جشن منایا تھا وہ کافی نہیں ہے ۔ انہیں حقیقی معنوں میں جنگ بند کروانے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ صرف زبانی جمع خرچ سے فلسطینیوں کی ہمدردی کافی نہیں ہوسکتی ۔ پوری شدت کے ساتھ اسرائیل کو روکنے کیلئے اقدامات کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تحدیدات کا نفاذ نقطہ آغاز ہوسکتا ہے ۔