اسرائیل کا دوغلا پن

   

یارب ترے جہاں میں کوئی بھی دکھی نہ ہو
دل میں ملال چہروں پہ آزردگی نہ ہو
اسرائیل اور امریکہ کا ڈوغلا پن ایک بار پھر واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے ۔ ایک دن قبل ہی امریکی صدر نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل نے مشرق وسطی کیلئے ایک جامع روڈ میاپ پیش کیا ہے ۔اس روڈ میاپ میں مکمل جنگ بندی ‘ غزہ کی تمام آبادیوں سے اسرائیلی فوج کا انخلاء اور قیدیوں کی رہائی بھی شامل تھی ۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے تحت علاقہ میں دیرپا امن قائم ہوسکتا ہے ۔ یہ ایک بہترین موقع ہے اور اس موقع کو گنوایا نہیں جانا چاہئے ۔ انہوں نے حماس پر بھی زور دیا تھا کہ وہ اس منصوبہ کو تسلیم کرلے تاکہ متاثرہ علاقوں میں عوام کو راحت اور امداد پہونچائی جاسکے ۔ اس منصوبے کی پیشکشی کے چند ہی گھنٹوں بعد اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے پھر اپنی جارحیت اور ڈوغلے پن کا اظہار کردیا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ جب تک حماس کو ختم نہیں کیا جاتا اس وقت تک جنگ بندی ممکن نہیں ہے ۔ کل جس وقت امریکی صدر جو بائیڈن نے اس منصوبے کا اعلان کیا تھا انہوں نے یہ شرط نہیں عائد کی تھی کہ حماس کے خاتمہ تک جنگ بندی نہیں ہوگی ۔ بلکہ انہوں نے حماس کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے اپیل کی تھی کہ وہ اس موقع سے استفادہ کرے اور اسرائیل کی پیشکش کو قبول کرے تاکہ علاقہ میں دیرپا امن قائم ہوسکے ۔ جس طرح سے نیتن یاہو نے آج حماس کے خاتمہ کا اعلان کیا ہے انہوں نے عملا جنگ بندی کے امکانات کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ غزہ پر فلسطینی اتھاریٹی کا نہیں بلکہ حماس کا کنٹرول ہے اور اس کے وجود سے انکار کی گنجائش نہیں ہے ۔ حماس کو نشانہ بنانے کے نام پر ہی غزہ میں بے تحاشہ تباہی مچائی گئی ۔ غیر انسانی حملے کئے گئے اور غزہ کے شہریوں کو بے طرح مصائب کا شکار کردیا گیا تھا ۔ اب جنگ بندی کی پیشکش اور روڈ میاپ کا دکھاوا کیا گیا تاکہ دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف جو غم و غصہ کی لہر پیدا ہو رہی ہے اس کو کم کیا جاسکے ۔ یہ تاثر دیا جاسکے کہ اسرائیل جنگ بندی چاہتا ہے اور اس نے اس کیلئے روڈ میاپ بھی پیش کردیا ہے ۔ یہ محض ایک دکھاوا اور ڈوغلے پن کا ثبوت ہے ۔ اس کے ذریعہ دنیا کو ایک بار پھردھوکہ دیا جا رہا ہے ۔ اسرائیل اپنے ناپاک عزائم اور منصوبوں کی تکمیل چاہتا ہے اور اس کیلئے وہ دنیا کو فریب کا شکار کرنے سے گریز نہیں کرے گا ۔ امریکہ بھی اس بات کو سمجھتا ہے اور اس میں وہ اسرائیل کا معاون و مددگار بن گیا ہے ۔
امریکہ بھی جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کی دہائی دیتے ہوئے اپنے عزائم اور مقاصد کی تکمیل کرتا ہے غزہ کے معاملے میں ڈوغلے پن کا کھلا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ وہ ایک طرح سے اسرائیل کی کٹھ پتلی بن گیا ہے ۔ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالنے سے گریز کر رہا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بند کرے ۔ غزہ کے شہریوں کی زندگی کو اجیرن بنانے کا سلسلہ ترک کیا جائے ۔ وہاں انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کا سلسلہ بحال کیا جائے ۔ تاہم امریکہ ایسا کرنے سے انکار کر رہا ہے اور وہ دنیا بھر میں امن کی دہائی دینے کا دکھاوا بھی کرتا ہے ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ کئی یوروپی ممالک کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کیا جا رہا ہے اور وہاں اپنے سفارتخانے قائم کرنے کی سمت پہل کی جا رہی ہے تو امریکہ اور اسرائیل ایسا لگتا ہے کہ دنیا کو بیوقوف بنانے اور گمراہ کرنے کے منصوبہ پر عمل کرنے تیار ہوگئے ہیں۔ انہیں اپنے دوہرے معیارات کو ترک کرتے ہوئے سنجیدگی کے ساتھ جنگ بندی اور قیام امن کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسرائیل اگر اپنی وحشیانہ حرکتوں اور جارحانہ کارروائیوں سے باز نہیں آتا تو امریکہ کو اس پر دباو ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ اسرائیل کے خلاف تحدیدات عائد کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ اسرائیل غزہ میں انسانیت سوز جرائم کا سلسلہ بند کرے لیکن امریکہ ایسا نہیں کرے گا کیونکہ وہ اسرائیل کے ہاتھوں کھلونا بن گیا ہے اور دنیا بھر میں اس کا وقار اور امیج دونوں ہی متاثر ہونے لگے ہیں۔ اسرائیل کی محبت میں امریکہ کو غزہ کے شہریوں کے مصائب نظر نہیں آتے اور نہ ہی فلسطینی بچوں کی اجیرن ہوتی ہوئی زندگی اسے نظر آ رہی ہے ۔
آج ساری دنیا کو یہ دیکھنای چاہئے کہ کس طرح سے اسرائیل اور امریکہ دنیا کو گمراہ کرتے ہوئے ناپاک اور وحشیانہ عزائم کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ اب موقع ہے کہ علاقہ میں امن قائم کیا جائے اور آزاد اور خود مختار ریاست فلسطین کو حقیقت کا روپ دیا جائے ۔ جہاں کئی یوروپی ممالک کی جانب سے اس کو تسلیم کیا جا رہا ہے تو دنیا کے تمام بڑے ممالک کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسرائیل پربھی دباؤ ڈالے ۔ ضرورت پڑنے پر اس کے خلاف تحدیدات عائد کی جائیں اور اسے مجبور کیا جائے کہ وہ بھی آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے اور اپنی وحشیانہ کارروائیوں کا سلسلہ ترک کرے ۔ اگر دنیا اب بھی اسرائیل پر اثر انداز نہیں ہوتی تو پھر فلسطین میں شہید ہونے والے ہر شہری کے خون کی وہ بھی برابر کی ذمہ دار ہوگی ۔ خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل کو اپنے ڈوغلے پن کو ختم کرنا چاہئے۔
تشکیل تلنگانہ کے 10 سال
تلنگانہ ریاست کو وجود میں آْئے دس برس کا عرصہ گذر چکا ہے ۔ آج دس سال کی تکمیل ہو رہی ہے اور ساری ریاست میں اس کا جشن منایا جا رہا ہے ۔ تلنگانہ ریاست نے گذشتہ دس سال میں جو پیشرفت کی ہے وہ قابل قدر کہی جاسکتی ہے ۔ ریاست کو کئی شعبہ جات میں مزید ترقی کرنے اور اپنے موقف کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے ۔ دس سال کے مختصر عرصہ میں بھی ریاست نے ملک کی دوسری ریاستوں کیلئے ایک مثال قائم کی ہے اور مزید بہت کچھ حاصل کرنا ابھی باقی ہے ۔ متحدہ ریاست آندھرا پردیش میںعلاقہ تلنگانہ کے ساتھ جو نا انصافیاں ہوئی تھیں وہ سارے ملک پر عیاں ہیں۔ تلنگانہ کو ہر شعبہ میں پچھڑا بنادیا گیا تھا اور اس کے وسائل کے استعمال میں بھی جانبداری برتی جا رہی تھی ۔ عوامی خواہشات اور جدوجہد کے ذریعہ ریاست تلنگانہ حاصل کی گئی اور اب دس برس ہوگئے ہیں۔ تلنگانہ کے ہر شہری کو اپنی ریاست پر فخر ہے اور ہر شہری کو اپنی ریاست کو ملک میں حقیقی معنوں میں مثالی اور ترقی یافتہ ریاست بنانے کیلئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جن خوابوں کے ساتھ علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل عمل میں لائی گئی ہے ان کو پورا کیا جاسکے اور تلنگانہ عوام اس کے ثمرات سے مستفید ہوسکیں۔