سعودی عرب نے اپنا موقف ایکبار پھر دہرایا، امریکہ کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھانے پر زور
ریاض : سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے بدلے میں امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدہ کی کوشش کو ترک کردیا۔ خبر رساں ادارے رائٹرز نے دو سعودی اور چار مغربی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ ریاض اب واشنگٹن کے ساتھ فوجی تعاون بڑھانے پر زور دے رہا ہے۔ سعودی عرب نے اس سال کے آغاز میں امریکہ کے ساتھ ایک وسیع پیمانے پر باہمی سلامتی کے معاہدے کے حصول کی کوشش میں فلسطینی ریاست کے بارے میں ایک نرم موقف کا اظہار کیا تھا۔ ریاض نے واشنگٹن کو بتایا تھا کہ اس سلسلے میں اسرائیل کی طرف سے مشرق وسطی کے دیرینہ مسئلے کے دو ریاستی حل کے لیے عوامی سطح پر عزم کا اظہار ہی ریاض کے لیے اس کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ لیکن غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں پر سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے خطے میں عوامی غم و غصے کے تناظر میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک بار پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے کو فلسطینی ریاست سے مشروط قرار دے دیا ہے۔ سعودی ولی عہد نے کہا ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لیے اسرائیل کو فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اب بھی طاقت کے گڑھ سعودی عرب کے ساتھ ایک تاریخی سنگ میل کے طور پر اور عرب دنیا میں وسیع تر قبولیت کی علامت کے طور پر تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بے چین ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق، نیتن یاہو کو گزشتہ سال 7 اکتوبر کے حماس کے اسرائیل پر حملوں کے بعد سے فلسطینیوں کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے کے خلاف ملک کے اندر زبردست مخالفت کا سامنا ہے۔ نیتن یاہو جانتے ہیں کہ فلسطینی ریاست کی سمت کی جانب کوئی بھی اشارہ ان کے حکمران اتحاد کو توڑ دے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ اسرائیلی اور سعودی رہنماؤں کو اندرونی طور پر اپنے حماتیوں کی جانب سے اس مسئلے پر انکے موقف کے حوالے سے دباؤ کا سامنا ہے۔ اس تناظر میں ریاض اور واشنگٹن کو امید ہے کہ صدر جو بائیڈن کے جنوری میں وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے پہلے معمولی دفاعی تعاون کا کوئی معاہدہ طے پا سکتا ہے۔ میڈیا کے مطابق نیتن یاہو کے دفتر نے، فلسطینی ریاست کے لئے سعودی موقف کے بارے میں سوال پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسری طرف کسی مکمل امریکی۔ سعودی دفاعی معاہدہ کی امریکی سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ توثیق ضرورری ہوگی۔ توثیق کا عمل اس وقت تک شروع نہیں ہوگا جب تک کہ ریاض اسرائیل کو تسلیم نہیں کرلیتا۔ تعاون کے جس معاہدہ پر اس وقت بات چیت چل رہی ہے اس میں مشترکہ فوجی مشقیں اور خطہ کے خطرات، خاص طور ایران کی جانب سے خطرات سے نمٹنے کی مشقیں شامل ہوں گی۔