اسرائیل کی ایک اور جنگ کی تیاری!

   

Ferty9 Clinic

یونہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہلِ جہاں
دیکھنا اِن بستیوں کو تم کہ ویراں ہوگئیں
مشرق وسطی کی فضائوں میں اب بھی ایک طویل جنگ کے اثرات باقی ہیں اور یہ علاقہ جنگ کے مابعد مسائل سے ابھی ابھرا بھی نہیں ہے کہ بعض گوشوںسے ظاہر کئے جانے والے اندیشوں کے مطابق اسرائیل علاقہ میں ایک اور جنگ کی تیاری کر رہا ہے ۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو کے تعلق سے دعوی کیا گیا ہے کہ وہ ایران کو اس کے بیالسٹک میزائیل پروگرام کا بہانہ بنا کر ایک اور بار نشانہ بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ یہ دعوی کیا گیا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں جاریہ ماہ کے اواخر میں صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران تبادلہ خیال کریں گے ۔ باخبر ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ اسرائیل نے اس بار ایران کے بیالسٹک میزائیل پروگرام کو بہانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اسرائیل کا دعوی ہے کہ ایران کی جانب سے بیالسٹک میزائل پروگرام میں پیشرفت کی جا رہی ہے اور وزیر اعظم اسرائیل بنجامن نتن یاہو اسی کو ایک مسئلہ بناکر پیش کر رہے ہیں اور یہ عذر پیش کر رہے ہیں کہ اس پروگرام کی وجہ سے اسرائیل اور سارے علاقہ کو خطرہ لاحق ہورہا ہے ۔ نتن یاہو اس مسئلہ پر ٹرمپ سے تبادلہ خیال کریں گے اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ نتن یاہو صدر ٹرمپ کو اپنے طور پر راضی کرنے کی کوشش کریں گے کہ انہیں ایران پر دوبارہ فضائی حملے کرنے کی اجازت دی جائے ۔ حالانکہ یہ کوئی سرکا ری یا باضابطہ اجازت نہیں ہوگی لیکن ٹرمپ کی رضامندی حاصل کرنے کی ضرور کوشش کی جائے گی ۔ اسرائیل ابتادء ہی سے اس علاقہ میں اپنے تسلط اور اجارہ داری کو یقینی بنانے کیلئے اپنے وحشیانہ عزائم پر عمل کر رہا ہے ۔ اس نے تقریبا دو سال کی جنگ میں فلسطین اور غزہ کا جو حال کیا ہے وہ ساری مہذب دنیا کے منہ پر ایک بدنما داغ ہے ۔ انسانیت سوز فوجی کارروائی میں اسرائیل نے غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔ اس نے وحشیانہ بمباری کرتے ہوئے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے لیکن دنیا نے اس تعلق سے منہ موڑ لیا تھا اور بالواسطہ نتن یاہو کے جنگی جرائم کی حمایت کی تھی ۔ شائد یہی وجہ رہی ہو کہ نتن یاہو نے اب اپنے عزائم کو مزید آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے طور پر تیاری بھی کر رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہوں یا دنیا کے دوسرے ممالک ہوں ان سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نتن یاہو کو اس کے وحشیانہ عزائم اور جارحانہ منصوبوں سے روکیں۔ دنیا میں ہر ملک کو اپنی دفاع کیلئے ہتھیار بنانے اور اسلحہ تیار کرنے کا پورا حق حاصل ہے ۔ خود اسرائیل اپنے پاس نیوکلئیر ہتھیار رکھتا ہے اور وہ انتہائی جارحانہ رویہ رکھتا ہے ۔ سارے علاقہ کو اگر کسی سے خطرہ لاحق ہے تو و ہ غاصبانہ قبضہ سے بنائے گئے اسرائیل سے ہے ۔ علاقہ کے کسی اور ملک نے علاقائی امن و سلامتی کو کوئی خطرہ پیدا نہیں کیا ہے اور جہاں تک ایران کا سوال ہے تو ایران اپنے حقوق کیلئے ہمیشہ سے جدوجہد کرتا رہا ہے ۔ اس نے امریکہ یا دوسرے مغربی ممالک کے دباؤ کو کبھی تسلیم نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس نے کسی کو خود پر حاوی یا مسلط ہونے کی اجازت دی ہے ۔ جہاں علاقہ کے کچھ ممالک کی جانب سے اسرائیل کے تعلق سے نرم لب و لہجہ اختیار کیا جا رہا ہے وہاں اسرائیل نے ایسا رویہ بھی اختیار نہیں کیا تھا ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اسرائیل فلسطین اور غزہ میں بے تحاشہ تباہی مچانے کے بعد اب ایران کو دوبارہ نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ غزہ جنگ کے دوران بھی اسرائیل نے ایران کو نشانہ بنایا تھا ۔ ایران نے بھی اس کا اپنی طاقت کے مطابق جواب دیا ۔ اگر اسرائیل ایک بار پھر ایران پر حملے کرتا ہے تو اس سے دونوں ملکوں کے مابین ایک مکمل جنگ شروع ہونے کا اندیشہ ہے ۔ اگر یہ جنگ شروع ہوتی ہے تو سارے مشرق وسطی پر اس کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
حالانکہ ابھی باضابطہ طور پر ایسے کسی منصوبے کا افشاء نہیںہوا ہے لیکن حالات سے واقفیت رکھنے والے ذرائع نے اس کی توثیق کی ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نتن یاہو اس منصوبہ پر ٹرمپ سے بھی بات کریں گے ۔ ٹرمپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ جہاںدنیا بھر میں جنگیں رکوانے کا دعوی کرتے ہیں اس کو درست ثابت کرنے کیلئے اسرائیل پر بھی لگام لگائیں اور نتن یاہو کو اس کے بہیمانہ عزائم اور منصوبوں کو پورا کرنے کی رضامندی نہ دیں۔ ٹرمپ کو بھی یہ جان لینے کی ضرورت ہے کہ مشرق وسطی کا علاقہ اب ایک اور جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا اور جنگ مسلط کی جاتی ہے تو اس کے اثرات دنیا بھر پر مرتب ہوسکتے ہیں۔