اسرائیل کی منظم سازش اور رفح

   

اب پرندے جانور بھی بن گئے ماتا پتا
ایک انساں ہی جہاں میںا یسا ویسا ہوگیا
ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل نے دنیا بھر میں اپنی مخالفت اور تنقیدوں کو خاطر میں نہ لانے کا تہیہ کرلیا ہے ۔ اسرائیل کی جانب سے مسلسل منصوبہ بند انداز میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ شروع کرچکا ہے ۔ پہلے غزہ کو نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔ غزہ میں فلسطینیوں کی آہیں اور سسکیاں ہی رہ گئی ہیں۔ وہاں زندگی کے کوئی آثار باقی نہیں رہ گئے بلکہ محض چند باقیات دکھائی دیتی ہیں۔ اسرائیل نے جس جارحیت اور انسانیت سوز حرکت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ پر بمباری کی اور سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کردیا اور ساری دنیا تماشہ دیکھتی رہ گئی ۔ دنیا کے ڈوغلے پن کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے چند اسرائیلیوں کے تعلق سے تو پوری دنیا میں شور شرابہ کیا گیا لیکن جو ہزاروں فلسطینی شہید کئے گئے ان کے تعلق سے کوئی تذکرہ تک نہیں کیا گیا ۔ امریکہ کا ڈوغلا پن یہ تھا کہ وہ اسرائیلیوں کی زندگی اور کے تحفظ کی دہائی دیتا رہ گیا اور فلسطینیوں کی شہادتوں اور ہزاروں اموات پر اس نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ۔ دنیا بھر میں جب مظاہرے شروع ہوئے اور دنیا نے فلسطینیوں کی شہادتوں کا بھی نوٹ لینا شروع کیا تو امریکہ نے انتہائی مجبوری کی حالت میں جنگ بندی کی بالواسطہ حمایت کی ۔ جنگ بندی کیلئے اسرائیل پر کوئی دباؤ نہیں ڈالیا گیا اور نہ ہی اسرائیل کی حمایت اور فوجی امداد کا سلسلہ روکا گیا ۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور فوجی طاقت سمجھے جانے والے ممالک انتہائی ڈوغلے پن کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں اور اب بھی اسی کا سلسلہ جاری ہے ۔ صرف امریکہ نہیں بلکہ برطانیہ ہو یا جرمنی ہو ‘ فرانس ہو یا دوسرے ممالک ہو سبھی نے اسرائیل جارحیت کی راست یا بالواسطہ کسی نہ کسی طرح سے تائید و حمایت ضرور کی ہے اور اسرائیل کو مدد بھی فراہم کی گئی ہے ۔ اسرائیل پر دباؤ ڈالتے ہوئے فلسطینیوں کے قتل عام اور ان کی نسل کشی کا سلسلہ روکنے کیلئے کوئی پہل نہیں کی گئی اور نہ ہی اقوام متحدہ کو اس سلسلہ میں کوئی قرار داد منظور کرنے کا موقع دیا گیا ۔ اقوام متحدہ بھی دنیا کے چند مٹھی بھر طاقتور ممالک کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر رہ گیا ہے ۔
غزہ میں زندگی کے آثار بالکل ختم کردینے کے بعد اسرائیل نے اب اپنی ساری توجہ رفح پر مرکوز کردی ہے ۔ رفح پر بھی جارحیت کے ساتھ حملے کرتے ہوئے وہاں بھی فلسطینیوں کو شہید کیا گیا اور ان کے خلاف فوجی کارروائی کا سلسلہ جاری کردیا گیا ۔ اب جبکہ دنیا بھر میں رفح پر کی جانے والی کارروائیوں پر تنقیدیں کی جا رہی ہیں تو اسرائیل ایسا لگتا ہے کہ ان کو خاطر میں لائے گئے بغیر اپنے منصوبوںکو عملی جامعہ پہنانے میں مصروف ہے ۔ ایک طرف کچھ یوروپی اور مغربی ممالک یکے بعد دیگرے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں تو دوسری جانب اسرائیل فلسطین کو صفحہ ہستی سے ختم کرنے اور صرف اپنی ظالم اور صیہونی ریاست کے وجود کو منوانے کی کوششوں میں مصروف ہوگیا ہے ۔ یہ کوشش نہیں بلکہ سازش ہی ہے جس کے تحت یکے بعد دیگر فلسطینی شہروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور نہتے ‘ بے بس اور بے یار و مددگار فلسطینیوں کو شہید کیا جا رہا ہے ۔ دنیا بھر میں طلبا برادری کی جانب سے فلسطینیوں کی تائید میں مظاہرے کئے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود ان ممالک کی حکومتوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ممالک اور ان کے حکمرانی اسرائیل کے مظالم میںاپنی برابر کی حصہ داری رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ فلسطینیوں کے خون سے اپنے بھی ہاتھ رنگ رہے ہیں اور انہیںاس بات میں کوئی عار محسوس نہیں ہو رہا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی دھجیاںاڑائی جا رہی ہیں اور اقوام متحدہ کی جانب سے مجرمانہ غفلت برتی جا رہی ہے ۔
اسرائیل ایسا نہیں ہے کہ جذبات میں بہہ کر کوئی بھی فیصلہ کرنے والا ملک ہے ۔ وہ اپنے منصوبوں کو کئی کئی برسوں پر محیط رکھتا ہے اور اسی کے تحت اب یکے بعد دیگر فلسطینی شہروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ فلسطینیوں کی شہادت کے ذریعہ ان کے جذبہ حریت کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور دنیا بھر میں ہونے والی مخالفتوں کی کوئی پرواہ نہیں کی جا رہی ہے ۔ دنیا کے بڑے ممالک کو کم از کم اب اپنے ڈوغلے پن کو ترک کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حق میں آگے آنے کی ضرورت ہے تاکہ اسرائیل کی سازشوں کو ناکام بنایا جاسکے ۔ بصورت دیگر یہ ممالک بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کے ذمہ دار ہی سمجھے جائیں گے ۔