اسرائیل کی پھر جارحیت

   

اسرائیل وقفہ وقفہ سے اپنی غیر انسانی جارحیت کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے ۔ فلسطین کے علاقوں پر قبضہ کرنے اور اپنی نوآبادیات کو مسلسل وسعت دینے کے باوجود وہ فلسطینی علاقوں پر حملوں کو کسی نہ کسی بہانے سے جاری رکھتا ہے ۔ وقفہ وقفہ سے اس طرح کی کارروائیاں کی جاتی ہیں جن کے نتیجہ میں سارے مشرق وسطی کا ماحول بگڑ جاتا ہے ۔ تاہم سب سے زیادہ مشکلات اور پریشانیاں فلسطینی عوام کوہوتی ہیں۔ ان کی زندگیوں کو اجیرن کیا جا رہا ہے ۔ ان کے گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے اور انہیں غیرانسانی جارحانہ حملوں کے ذریعہ ہلاک کیا جا رہا ہے اور سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ساری دنیا اس پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ ساری دنیا اس قتل عام کی ذمہ دار ہے جو اسرائیل کو روکنے کی جراء ت نہیں کرپاتی ۔ علاقہ کے دوسرے ممالک کو بھی اسرائیل سے قربتیں بڑھاتے ہوئے کوئی احساس نہیں ہو رہا ہے کہ وہ فلسطینی باشندوں کی نعشوں پر غاصب اسرائیل سے اپنے تعلقات استوار کر رہے ہیں۔ ایسے وقت میں جبکہ دنیا میں پہلے ہی یوکرین اور روس کے مابین ایک جنگ چل رہی ہے ۔ اس جنگ کو ختم کروانے کی بجائے کچھ ممالک اس کو ہتھیاروں کی سربراہی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے طوالت دے رہے ہیں۔ دوسری جانب تائیوان پر چین کے حملے کے تعلق سے ساری دنیا کو فکر مند ہے جبکہ ابھی کوئی حملہ ہوا نہیں ہے ۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر حملے کئے جا رہے ہیں۔ نہتے عوام پر فضائی حملے کرتے ہوئے تباہی مچائی جا رہی ہے اور خود کو انصاف پسند قرار دینے والے دنیا کے ڈوغلے ممالک اس تعلق سے یا تو خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں کچھ اور بھی زیادہ بے غیرت بنتے ہوئے اسرائیلی حملوں اور جارحیت کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ممالک بھی فلسطینیوں کے خون کے برابر ذمہ دار قرار دئے جاسکتے ہیں۔ جمعہ سے اپنی کارروائیوں کا آغاز کرتے ہوئے اسرائیل نے درجنوں فلسطینیوں کو ہلاک کردیا ہے اور درجنوں گھر اور عمارتیں مسمار کردی گئی ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ دنیا اس پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور لب کشائی سے گریز کیا جا رہا ہے ۔
گذشتہ ماہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل اور علاقہ کے کچھ دوسرے ممالک کا دورہ کیا تھا ۔ اس دورہ کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ فلسطین میں حالات میں کچھ سدھار آئے گا تاہم اس کے برخلاف اسرائیل نے تباہ کن حملے کردئے ہیں اور ایک طرح سے فلسطین کے نہتے اور مشکلات کا شکار عوام پر جنگ مسلط کردی ہے ۔ امریکی صدر کے دورہ اسرائیل کے بعد اس طرح کے حملوں سے ان شکوک کو تقویت ملتی ہے کہ امریکی صدر نے ان حملوں کی درپردہ منظوری تو نہیں دی ہے ۔ ویسے بھی امریکہ کی جانب سے اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت کرنے کی بجائے ان کا جواز تلاش کرنے کی کوششیں ہی کی جاتی ہیں اور امریکہ اسرائیل پر لگام کسنے کی بجائے فلسطینیوں کے حقوق تلف کرنے میں زیادہ سرگرمی دکھاتا ہے ۔ فلسطینی اراضیات پر غاصبانہ قبضوں اور یہودی نوآبادیات کی تعمیر کی تائید کرتے ہوئے امریکہ بھی فلسطینیوں کو کچلنے میں برابر کا ذمہ دار ہے ۔ دنیا کے وہ دوسرے ممالک بھی اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر حملوں پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں جو یوکرین ۔ روس جنگ پر شور شرابہ کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ تائیوان ۔ چین تنازعہ پر انہیں فکر لاحق ہوتی ہے لیکن وہ اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں پر خاموشی اختیار کئے ہوتے ہیں۔ دنیا کی یہ خاموشی ان کی ڈوغلے پن اور دوہرے معیارات کا ثبوت ہے ۔ یہ ممالک راست یا بالواسطہ طور پر اسرائیلی جارحیت کی حمایت کرتے ہیں اور اسرائیل کے جرائم میں برابر کے شریک کہے جاسکتے ہیں۔
خود مشرق وسطی کے مختلف ممالک بھی امریکہ کے دباؤ میں بتدریج اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرتے جا رہے ہیں۔ یہ ممالک فلسطینی کاز کی تائید کا اعلان زبانی طور پر تو کرتے ہیں لیکن عملی طور پر یہ بھی ڈوغلے پن کا شکار ہیں۔ فلسطین اور اس کے کاز کو یہ لوگ فراموش کرتے جا رہے ہیں۔ فلسطینی عوام کے حقوق مسلسل تلف کئے جا رہے ہیں۔ ان کو تباہی کا شکار کیا جا رہا ہے ۔ ان کا قتل عام کیا جا رہا ہے لیکن یہ ممالک اپنی حکومتیں بچانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ علاقہ کے ممالک ہوں یا دنیا کے دوسرے ممالک ہوں سبھی کو اپنے ڈوغلے پن کو ترک کرتے ہوئے نہتے فلسطینیوں کے حق میںآواز بلند کرنی چاہئے ۔