اسرائیل کے انتخابی نتائج

   

Ferty9 Clinic

اسرائیل کے انتخابات معلق ہونے سے مشرق وسطیٰ خاص کر فلسطینیوں کے حق میں کتنے پرامن حالات پیدا ہوں گے یہ آگے چل کر پتہ چلے گا۔ اسرائیلی رائے دہندوں نے صرف پانچ ماہ میں دوسری بار عام انتخابات میں حصہ لے کر بھی اپنا یکساں فیصلہ سنایا۔ جو صورتحال گزشتہ اپریل کے انتخابی نتائج کے بعد پیدا ہوئی تھی وہی کیفیت اب بھی دیکھی گئی ہے۔ بنجامن نیتن یاہو اور اپوزیشن لیڈر بینی گینزنے ایک اتحادی حکومت تشکیل دینے کی کوشش شروع کردی ہے۔ اسرائیلیوں کو یہ اُمید تھی کہ پانچ ماہ کے اندر دوسری مرتبہ رائے دہی سے ان کے سامنین ایک واضح تصویر اُبھرے گی لیکن اسرائیل کو سیاسی بحران سے باہر لانے کی کوشش پھر ایک بار رائیگاں گئی۔ اسرائیل کی اس سیاسی صورتحال پر عرب رائے دہندوں کا موقف مضبوط ہوتا ہے تو یہ ان کے لئے ایک مناسب تبدیلی کی طرف اشارہ ہوگا۔ اسرائیل کی اپوزیشن پارٹی بلیو اینڈ وائٹ کو 32 نشستیں ملی ہیں جبکہ اسرائیل کے متواتر وزیراعظم رہنے والے بنجامن نیتن یاہو کی پارٹی لکویڈ کو 31 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے کے انتخابات میں دونوں پارٹیوں کو 35 ، 35 نشستیں ملی تھیں جس پر وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے دوبارہ انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا۔ اپنی حکومت بچانے کی کوشش میں وہ اس مرتبہ بھی ناکام رہے۔ یہ انتخابی نتائج ظاہر کررہے ہیں کہ اسرائیلی عوام نے اپنے ملک کو بنجامن نیتن یاہو سے بچانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی یہ کوشش ان کے حق میں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکی۔ اب بھی اسرائیل سیاسی طور پر بُری طرح منقسم ہے۔ انتشار کی اس کیفیت نے مشرق وسطیٰ میں ایک فکری صورتحال پیدا کردی ہے۔ وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو مذہبی، نسلی اور نظریاتی خطوط پر انتخابی مہم چلاکر بھی اپنے حصہ کے ووٹ حاصل نہیں کرسکے۔ ان کے مقابل اپوزیشن لیڈر مسٹر گینز اور دیگر پارٹی پارٹی لیڈر مسٹر ایکوڈور لیبرمین کو بادشاہ گر کا موقف حاصل ہے۔ اُنھوں نے ایک وسیع تر مخلوط حکومت کی حمایت کی ہے تاکہ اسرائیلی پارلیمنٹ کے توسط سے حکمرانی کرتے ہوئے اسرائیلی سیاست کے زیادہ سے زیادہ انتہا پسند عناصر کو کنارہ پر لایا جاسکے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ ان کا سیاسی مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوچکا ہے۔ ان پر رشوت ستانی کے الزامات سنگین ہیں۔ اب انھیں پارلیمنٹ کے تحت استغاثہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہوگا۔ گزشتہ انتخابات میں اُنھوں نے اپنی سیاسی بقاء کی جنگ شدت سے لڑی تھی لیکن اسرائیلی رائے دہندوں نے خاص کر اسرائیلی عرب باشندوں نے ان کی کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اسرائیلی عرب باشندوں کے لئے دونوں سیاسی پارٹیاں یکساں حیثیت رکھتی ہیں کیوں کہ دونوں پارٹیں کا فلسطین کے تعلق سے ایک ہی موقف ہے۔ تاہم اپوزیشن پارٹی بلو اینڈ وائٹ کے لیڈر کو آزمانے کا جہاں تک سوال ہے اسرائیلی عربوں کو اس پارٹی سے اتحاد کرنے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ ان انتخابات کے نتائج سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عرب شہریوں کو عظیم تر نمائندگی ملنے والی ہے۔ اگر ان کا سیاسی موقف مضبوط ہوجائے تو پھر اسرائیلی پارلیمنٹ میں ان کی آواز سنی جاسکے گی۔ پہلی مرتبہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں اگر عرب قانون ساز اپوزیشن لیڈر بن کر داخل ہوں گے تو ان کو بلند آواز میں بات کرنے کا بھی موقع ملے گا اور یہ آواز ساری دنیا تک پہونچے گی۔ فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کرکے غاصبانہ رول ادا کرنے والے اسرائیل کو اب سنگین حالات کا سامنا ہے۔ سیاسی ناپختہ کاری اور غیر یقینی صورتحال، اسرائیل کی کارکردگی کو معذور بنادے گی۔ ایک معذور ملک پڑوسیوں کے لئے مزید خطرناک ثابت ہوگا یا بہتری کی اُمید پیدا کرے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ اس وقت دونوں پارٹیوں کو عرب قائدین کی حمایت کی ضرورت ہے۔ اپریل کے انتخابات میں عرب قائدین کو صفر کامیابی ملی تھی لیکن اس مرتبہ عرب رائے دہندوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے تو نتائج بھی موافق عرب آنے کی اُمید ہے۔ اُبھرتی صورتحال سے ظاہر ہورہا ہے کہ اسرائیل سیاسی طور پر دو حصوں میں بٹ کر کمزور پڑجائے گا۔ فلسطینیوں کے سرحد پر فلسطینیوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے والے اسرائیل کو اپنی دیگر سرحدوں پر پریشانی کا سامنا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ انتخابات بھی عارضی ثابت ہوں اور بہت جلد تیسرے انتخابات کا اعلان کیا جائے گا۔